روحانی کی جیت، ایران نے کٹر پسندی کو مسترد کیا

ایران میں حسن روحانی کی صدارتی چناؤ میں دوبارہ کامیابی واقعی ہی ایک بڑا کارنامہ ہے۔ صاف ہے کہ صدر کے طور پر اپنے پہلے عہد میں روحانی نے ایران کو اصلاح پسندی کی طرف لے جانے اور مغربی ملکوں سے میل جول بڑھانے کے جو قدم اٹھائے تھے ووٹروں نے ان کی حمایت کی ہے۔ حسن روحانی کی کامیابی تقریباً طے تھی۔ سارے سروے انہیں آگے دکھا رہے تھے حالانکہ یہ اس معنی میں ایران کا بڑا واقعہ ہے کہ روحانی ایک ہی بار میں قریب 57 فیصدی ووٹ پاکر منتخب ہوگئے۔ ایران کے آئین کے مطابق اگر چناؤ میں کسی بھی امیدوار کو 50 فیصدی سے زیادہ ووٹ نہیں ملتے تو اگلے ہفتے دوسرے دور کا مقابلہ ہوتا ہے۔ ایران میں 1985ء سے ہی ہر ایک صدر کا دوبارہ چناؤ ہوتا ہے۔ خامنہ ای خود دوبارہ دوسرے عہد کیلئے منتخب ہوئے تھے۔ یہ روحانی کی پالیسیوں کی عوام کے درمیان وسیع حمایت کی علامت تو ہی ہے لیکن جمہوریت کے مضبوط ہونے کا بھی اشارہ دیتا ہے۔ چناؤ جیتنے کے بعد صدر روحانی نے کہا کہ ان کا دوبارہ چنا جانا بتاتا ہے کہ رائے دہندگان نے کٹر پسندی کو مسترد کیا ہے اور وہ باہری دنیا سے اور زیادہ روابط چاہتے ہیں۔ سرکاری ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ اپنی تقریر میں کہا کہ ایران نے دنیا کے ساتھ بات چیت کا راستہ چن لیا ہے یہ راستہ تشدد اور کٹر پسندی سے بالکل الگ ہے۔ اب چناؤ ختم ہوگئے ہیں۔ مجھے ہر ایک ایرانی شہری کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ان کی بھی جو میری اور میری پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں البتہ دوسرے عہد میں روحانی کے سامنے چنوتیاں بھی زیادہ بڑی ہوں گی۔ ایک تو یہ ہی کہ پابندی ہٹا لئے جانے پر بھی ایران کے عام لوگوں پر اس کا بہتر اثر ابھی تک نہیں دیکھا گیا۔ معیشت بدحال اور بے روزگاری کا مسئلہ بھی پیچیدہ ہے۔ ایسے ووٹروں کے بڑے حصے نے بھلے ہی اصلاح پسند مذہبی پیشوا کو صدر چنا ہو لیکن سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اس بار روحانی کو شاید ہی اسی طرح آزادی دیں، کیونکہ روحانی سے ہارے ہوئے ابراہیم رئیسی خامنہ ای کے قریبی مانے جاتے ہیں۔ روحانی کو بڑی چنوتی امریکہ سے بھی ملے والی ہے جہاں اب صدر براک اوبامہ نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ پچھلے دنوں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہوا معاہدہ منسوخ کرنے تک کی بات کہیں تھی۔ 68 سالہ روحانی اصلاح پسند نظریات کے دائی ہیں۔ کٹرپسند اسلامی قانون والے ایران میں شخصی آزادی کو بڑھانے کے لئے کام کرنے کی وجہ سے جنتا کا رجحان ان کی طرف بڑھا ہے۔ روحانی دیا کے دوسرے ملکوں کے ساتھ ایران کے رشتے بہتر بنانے کے حمایتی ہیں۔انہوں نے جب اقتدار سنبھالا تو ایران اقتصادی پابندیوں کو جھیل رہا تھا۔ روحانی کے پہلے عہد میں امریکہ اور ایران کے درمیان جو نیوکلیائی سمجھوتہ ہوا جو دنیا میں اس کے الگ تھلگ پڑنے کے دورپر رہتے ہوئے سنجیونی ثابت ہوا۔ اسی سمجھوتے کے سبب امریکہ اور ایران کے ساتھ آپسی تعلقات بہتر ہوئے اور اس سے دیش کو ہر سطح پر فائدہ ملا۔ روحانی نے بہت حد تک ایران کی معیشت کو بہتر کیا ہے۔ یہ دنیا کے دیشوں کے ساتھ رشتے بہتر کرنے کی ایماندارانہ کوششوں سے ہی ممکن ہوا ہے۔ روحانی بھارت کے دوست مانے جاتے ہیں اور دوبارہ سمجھوتہ دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار رشتوں کی مثال ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ایران نے بھی مورچہ کھول دیا ہے۔ ایران نے پاکستان کے بلوچستان علاقہ میں مورٹار بھی داغے۔ پاکستانی میڈیا نے اس کی تصدیق کی۔ بتا دیں اسی مہینے کے پہلے ہفتے میں ایران پاکستان کو دھمکی بھرے الفاظ میں اپنے یہاں سبھی دہشت گردی کے اڈوں کو تباہ کرنے کی نصیحت دی تھی۔ ایران نے کہا تھا کہ اگر پاکستان ایسا نہیں کرتا تو پھر ایران کی فوج پاکستان میں گھس کر دہشت گردوں کے اڈوں کو تباہ کردے گی۔ غور طلب ہے کہ اپنے 10 بارڈرگاڈس کی دہشت گردوں کے ذریعے قتل کے بعد ایران نے دہشت گردی کے خلاف حملہ آور رخ اختیار کرلیا ہے اور پاکستان کے آتنکی ٹھکانے ایران کے شانے پر ہیں کیونکہ ایران سے پابندی ہٹنے کے بعد نئی دہلی اور ایران نے کئی معاہدے کئے ہیں اس لئے یہی امید ہے کہ روحانی کے دوسرے عہد میں دونوں دیش ان سمجھوتوں کو آگے بڑھائیں گے۔ ہم صدر روحانی کو ان کی شاندار کامیابی پر مبارکباد دیتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟