راشٹرپتی چناؤ:اپوزیشن پر بھاری این ڈی اے

راشٹرپتی چناؤ کا وقت (25 جولائی سے پہلے) جیسے جیسے قریب آرہا ہے ، اپوزیشن اس عہدے کے لئے مشترکہ امیدوار طے کرنے کے لئے زیادہ سرگرم ہوچکی ہے۔ اس سمت میں کانگریس صدر سونیا گاندھی، راشٹریہ جنتا دل چیف لالو پرساد یادو، ترنمول کی چیف ممتا بنرجی جیسے سرکردہ لیڈر جٹ گئے ہیں۔ سونیا گاندھی نے فون پر ممتا، ملائم سنگھ یادو، مایاوتی اور لالو پرساد یادو سے بات کی ہے۔ اس سلسلے میں نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ نے دہلی میں سونیا گاندھی سے ملاقات کی اور کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے سپاچیف اکھلیش یادو و جنتا دل (یونیفائڈ) شرد یادو سے فون پر بات کی۔ اپوزیشن اتحاد میں کئی اڑچنیں ہمیں دکھائی دے رہی ہیں جن میں سب سے بڑی اڑچن یہ سامنے آئے گی کہ جہاں وہ اپوزیشن پارٹیوں کے عرصے سے آمنے سامنے رہی ہیں وہ ایک پالے میں آکرچناؤ لڑنے کو کیسے تیار ہوں گی؟ پھر چاہے بنگال میں ممتا ۔ لیفٹ ہوں ، تاملناڈو میں ڈی ایم کے۔ انا ڈی ایم کے ہوں، یوپی میں سپا ۔ بسپا ہوں یا پھر اڑیسہ میں بی جے ڈی۔ کانگریس ہو۔ دراصل اپوزیشن لیڈر مانتے ہیں کہ ایسے میں چناؤ لڑنا بھلے ہی ٹیڑھی کھیر ہو لیکن جولائی میں ہونے والے صدارتی چناؤ میں این ڈی اے کے سامنے اکھٹا ہوکرکسی امیدوار پر اتفاق رائے بنانا تعلقات کے اعتبار سے آسان ہے۔ اسے مستقبل (2019 لوک سبھا) میں اتحادبنانے کے امکان سے بھی جوڑ کردیکھا جارہا ہے۔ چلئے ایک نظر راشٹرپتی چناؤ کے لئے نمبروں پر ڈالتے ہیں۔ بھاجپا کی رہنمائی والے این ڈی اے( 23 پارٹیوں کے ایم پی اور ریاستی ایوانوں میں عوامی نمائندوں سمیت)کے پاس الیکٹرول کالج ہیں، میں تقریباً 48.64 فیصدی ووٹ ہیں۔ اس کے برعکس ریاست یا مرکز میں سیاسی تجزیوں کی بنیاد پر کانگریس کی رہنمائی والے اپوزیشن کے ساتھ جانے والا 23 پارٹیوں کا ووٹ شیئر 35.47 فیصدی بیٹھتا ہے۔ حال ہی میں پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی چناؤ میں اترپردیش ، اتراکھنڈاور منی پور میں بھاجپا کو ملی جیت نے راشٹرپتی چناؤ سے جڑے الیکٹرول کالج میں 5.2 فیصدی ووٹ کا فائدہ ہوا ہے۔ پنجاب اور گووا میں بھاجپا اتحاد کے ممبران اسمبلی کی تعداد میں کمی ضرور آئی لیکن اترپردیش ، اتراکھنڈ، منی پور میں پارٹی کے ممبران اسمبلی کی تعداد بڑھی ہے۔ راشٹرپتی چناؤ میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے سبھی ایم پی اور ایم ایل اے ووٹ دیتے ہیں۔ ان ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کو ملا کر یہ راشٹرپتی کے عہدے کے چناؤ کا الیکٹرول کالج بنتا ہے۔اس کے کل 784 ایم پی اور 4114 ایم ایل اے ہیں۔ اس کالج میں ووٹ کی ویلیو قاعدے کے مطابق الگ الگ ہوتی ہے۔اس کے مطابق ہر ایم پی کے ووٹ کی ویلیو 708 ہے جبکہ ایم ایل اے کے ووٹ کی ویلیو متعلقہ ریاست کی اسمبلی کی ممبر شپ نمبر اور اس ریاست کی آبادی پر منحصر ہوتی ہے۔ اس طرح یوپی کے ہر ایم ایل اے کے ووٹ کی حیثیت سب سے زیادہ 208 ہے وہیں سکم کے ہر ایم ایل اے کے ووٹ کی ویلیو سب سے کم 7 ہے۔ راشٹرپتی کے عہدے کے لئے 109888 ووٹوں کی ویلیو ہوتی ہے۔ اس میں چناؤ جیتنے کے لئے 5.39 لاکھ ووٹ چاہئیں۔ فی الحال بھاجپا کے پاس 4.57 لاکھ ووٹ ہیں۔ اس لحاظ سے این ڈی اے کو چناؤ میں اپنے امیدوار کو جتانے کے لئے صرف 92 ہزار ووٹوں کی ضرورت پڑے گی۔ اصولی طور پر بات کریں تو کانگریس کی رہنمائی والے اپوزیشن کے چھ پارٹیوں کو اپنے پالے میں کرنے میں کامیاب رہنے پر حکمراں گروپ اور اپوزیشن کے درمیان مقابلہ کانٹے کا ہوسکتا ہے۔ اکثریت کے اعدادو شمار کو پار کرنے کے لئے این ڈی اے کو صرف ایک پارٹی یا زیادہ سے زیادہ چھوٹی پارٹیوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی کیونکہ بھاجپا مرکز میں اقتدار میں ہے، لہٰذا اس کے پاس چناوی نتیجے اپنے حق میں کرنے کے لئے کافی گنجائش ہے۔ اپوزیشن کی راہ مشکل لگتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟