پانچ ریاستوں میں اسمبلی چناؤ : مودی کی پالیسیوں پر ریفرنڈم

پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کی تاریخوں کا اعلان ہوگیا ہے۔ ان انتخابات کو اگر 2019ء کے لوک سبھا چناؤ کا سیمی فائنل کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ان انتخابات کی نہ صرف دیش بھر میں اپنی اہمیت ہے بلکہ یہ امکانی سیاست کی سمت اور حالات طے کریں گے۔ کچھ لوگ اسے وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں کا ریفرنڈم سروے بھی کہہ رہے ہیں۔ یہ کچھ حد تک طے کریں گے کہ مودی کے عہد کا آدھا وقت پورا ہونے پر انہیں کتنی عوامی حمایت حاصل ہے؟ لوک سبھا چناؤ کے ان اسمبلی انتخابات وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے سب سے بڑی چنوتی ثابت ہونے جارہے ہیں۔ دراصل ان انتخابات کے ساتھ نہ صرف مودی کی ساکھ داؤ پر لگی ہے بلکہ ان کے سب سے بڑے فیصلے نوٹ بندی پر بھی ایک طرح سے ریفرنڈم ہوگا۔ اس کے علاوہ ان انتخابات کا اثر 6 مہینے بعد ہونے جارہے راشٹرپتی چناؤ پر بھی دکھائی دے گا کیونکہ اگر ان پانچ ریاستوں میں کم سے کم تین ریاستوں میں بھاجپا کی سرکار نہیں بنتی تو اسے راشٹرپتی چناؤ کے وقت دقتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر جنتا کا فیصلہ سرکار کی امیدوں کے مطابق آیا تو اسے کئی اور بڑے قدم اٹھانے کا حوصلہ ملے گا، لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو مستقبل میں مودی سرکار بڑے فیصلے لینے میں شاید ہی قباحت کرے۔ یوپی میں 24سال سے اکثریت کا انتظار کررہی بھاجپا کیلئے یہ خواب کوتعبیر کرنے کا موقعہ ہوگا۔ بہار میں ملی ہار سے مودی کی ساکھ پر لگیدھبے کو بھی یوپی کی جیت سے دھویا جاسکتا ہے۔ یوپی چناؤ میں نہ صرف مودی کی ساکھ داؤ پر ہے بلکہ ریاست کی ایس پی اور بی ایس پی جیسی پارٹیوں کا وجود بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ بھاجپا ایک بار پھر مودی کے کرشمے کے سہارے اترپردیش میں اقتدار پانے کی کوشش کررہی ہے۔ پارٹی مودی کی زیادہ سے زیادہ ریلیاں کراکر مرکز کی پالیسیوں کی بدولت میدان میں اترنے کا ارادہ ظاہر کرچکی ہے۔ اس کی وجہ کوئی مضبوط علاقائی چہرہ نہ ہونا بھی ہے۔ دیش کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں پچھلی تین دہائیوں سے سپا ۔ بی ایس پی کی حیثیت سے علاقائی پارٹیوں کا دبدبہ رہا ہے۔ وزیر اعلی اکھلیش یادو کا نہ صرف شخصی وقار بھی داؤ پر ہے بلکہ سپا کے سیاسی مستقبل کا بھی سوال بن گیا ہے۔ کنبے کے جھگڑوں کے سبب پارٹی کی ساکھ کو دھکہ لگا ہے۔
اکھلیش کے حمایتیوں کا خیال ہے کہ اکھلیش پہلے سے زیادہ طاقتور ہوکر ابھرے ہیں اور وکاس کے نام پر چناؤ لڑ کر سائیکل پر سوار ہوتے ہیں یا نہیں یہ بھی ابھی طے ہونا باقی ہے۔ جہاں تک مایاوتی کا سوال ہے بسپا پہلے کی طرح مایاوتی کے اکیلے شو پر منحصر ہے۔ پارٹی دلت۔ مسلمان فارمولے پر جیتنے کی کوشش کرے گی۔ کانگریس کے لئے بھی یہ چناؤ بیحد اہم ہے۔ ان چناؤ کے نتائج پر کانگریس کا مستقبل ہی نہیں وجود بھی ٹکا ہوا ہے۔ پارٹی کے لئے کرو یا مرو والی بات ہے۔ یوپی ، پنجاب، اتراکھنڈ، گووا اور منی پور ان سبھی جگہ کانگریس کی ساکھ داؤ پر لگی ہے۔ حالانکہ یوپی کو چھوڑ کر باقی جگہوں پر پارٹی فی الحال ٹھیک ٹھاک پوزیشن میں ہے۔ آنے والے چناؤ میں کانگریس کو اتراکھنڈ میں اپنے قلعہ کو بچانا ہے وہیں پنجاب اور گووا میں اقتدار کی واپسی کی کوشش کرنی ہوگی۔ یوپی کیلئے بڑی چنوتی اپنے کارکردگی کو سدھارنے کی ہے۔ اس سے بھی بڑی چنوتی بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکنا ہے۔ منی پور میں جہاں کانگریس کے سامنے نارتھ ایسٹ میں اپنا گڑھ بچانا ہے وہیں بی جے پی کانگریس مکت منی پور کے ٹارگیٹ سے میدان میں اترچکی ہے۔ آسام میں جیتنے کے بعد پہلی بار نارتھ ایسٹ میں اپنے دم پر سرکار بنانے کے بعد بی جے پی کو منی پور میں پہلی بار اچھے امکانات نظر آرہے ہیں۔ گووا میں بھاجپا کو اینٹی کمبینسی سے نمٹنا پڑے گا۔ پارٹی نے کسی بھی وزیر اعلی کو پروجیکٹ نہیں کیا ہے جس سے حریف پارٹیوں کو ان کے موجودہ وزیر اعلی لکشمی کانت پارسیکر کے ذریعے حملہ کرنے کا موقعہ مل گیا ہے۔ فیڈریشن کے باغیوں کی پارٹی کی مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔ یہ پارٹی بی جے پی کو سبق سکھانے اور ہرانے کے مقصد سے ہی بنی ہے۔ عام آدمی پارٹی میں یہاں سابق افسر شاہ ایلوس گومس کو اپنا وزیر اعلی کا امیدوار بنایا ہے۔ 
گومس کو گووا میں ایماندار افسر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے میدان میں اترنے سے مقابلہ سہ رخی ہوگیا ہے۔ ابھی تک پنجاب کے اقتدار کے لئے اکالی ۔ بی جے پی محاذ اور کانگریس کے درمیان مقابلہ ہوتا رہا ہے۔ عاپ سیدھے اکالیوں کو ٹارگیٹ کررہی ہے اور کانگریس کو مقابلے سے باہر مان رہی ہے۔ عاپ اور کانگریس دونوں کے لئے یہ وجود بچانے کی لڑائی ہے۔ وہیں اکالی دل کو اپنی 10 سال کی ناراضگی سے لڑنا ہے۔ ان پانچ ریاستوں میں سب سے زیادہ اہم یوپی مانا جارہا ہے۔ اس صوبے کی دیش میں اپنی سیاسی اہمیت ہے ساتھ ہی دیش کا سب سے بڑا پردیش ہونے کے سبب یہ بہت حد تک مستقبل کی بنیاد بھی بتائے گا۔ بڑی ریاست ہونے کی وجہ سے اترپردیش کا چناؤ سات مرحلوں میں ہوگا اس وجہ سے چناؤ کا عمل دو مہینے سے بھی زیادہ لمبا ہوجائے گا۔ اس درمیان 26 جنوری ،بسنت پنچمی جیسے تہوار بھی آئیں گے۔ ساتھ ہی مرکزی بجٹ (عام)؟ بھی پیش ہوگا اور جب تک چناؤ کے نتیجے آئیں گے ہولی کی مستی دروازے پر دستک دے رہی ہوگی۔ چناؤ کمیشن کے سامنے سپریم کورٹ کے اس حکم کو بھی عمل میں لانے کی چنوتی ہوگی جس میں مذہب ،نسل، زبان اور ذات کے چناوی استعمال پر روک لگی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟