این پی اے پر کنٹرول معاشی نظام کیلئے انتہائی ضروری ہے

جنتا میں نوٹ بندی کی غیر مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ کچھ کرپٹ بینکوں اور ان کے حکم کا رول رہا ہے۔ کچھ بینکوں کے کرپٹ حکام نے ذاتی فائدے کے لالچ میں نوٹ بندی پر ہی سوالیہ نشان لگوادیا۔ اگر مودی سرکار اپنی اقتصادی اسکیموں کی کامیابی چاہتی ہے تو بینکوں پر کنٹرول کرنا، نگرانی کرنا و سختی کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پرانے پھنسے قرض کے بحران سے مقابلہ کرنا سب سے بڑا مسئلہ یا چنوتی ہے۔ بینکوں کے قرض میں پھنسی رقم این پی اے کی ہے۔ دیش کے پبلک سیکٹر کے 27 بینکوں میں سے14 بینکوں نے پچھلے سال کل 34442 کروڑ روپئے کا خسارہ اٹھایا ہے جبکہ رواں مالی سال کے دوران حالات میں زیادہ بہتری نہیں دکھائی دیتی ہے۔ سرکاری بینکوں کے قرض میں پھنسی رقم یعنی این پی اے میں ستمبر 2016 ء کو ختم ہوئی سہ ماہی کے دوران 80 ہزار کروڑ روپئے کے قرض میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ ان بینکوں کا جی ڈی پی ، این پی اے ستمبر کے آخر تک 630323 کروڑ روپئے تک پہنچ گیا ہے۔ جون کے آخر میں یہ 550346 کروڑ روپئے پار کر گیا تھا۔ نوٹ بندی کے بعد این پی اے بڑھنے کا امکان ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے ایک کروڑ روپئے تک کہ رہائشی، کار اور ذراعت اور دوسری قرضوں کی قسط واپسی میں 60 دن کا مزید وقت دیا ہے۔ حالانکہ چوتھی سہ ماہی تک اس میں اضافہ کا رخ رہ سکتا ہے۔ پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی نے کہا ہے کہ بینکوں کے لئے اپنی پھنسی املاک کو گھٹانے کی فوری ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہونے پر وہ ہندوستانی معیشت پر بوجھ بن جائیں گے۔ مالیات کے بارے میں سینئر کانگریسی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر ویرپا موئلی کی سربراہی والی قائمہ کمیٹی نے پارلیمنٹ میں پیش کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پبلک سیکٹر کے بینکوں کا این پی اے (وصول نہیں ہورہا ہے) کا اشو ناسور بنا ہوا ہے۔ اور یہ بینکوں کے وجود کے لئے ایک بڑی چنوتی ہے۔ دیش کے بینکوں کے 9 ہزار کروڑ روپے لیکر فرار چل رہے وجے مالیا سرخیوں میں ہیں لیکن بینکوں کے پیسے نہیں چوکانے والوں کی فہرست کافی لمبی ہے۔ دیش میں 18176 لوگ ؍ کمپنیاں ایسی ہیں جو ڈیفالٹر ہیں۔ ان سب کا بھارتیہ بینکوں کا دو لاکھ سے اوپر بقایا ہے۔ سبھی 25 لاکھ اور ایک کروڑ سے زیادہ والے بقایا دار ہیں۔ بینکوں سے بھاری بھرکم رقم لیکر واپس نہ کرنے والوں پرکوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ لوک سبھا میں دی گئی جانکاری کے مطابق ستمبر 2015 ء تک 25 لاکھ اور اس سے زیادہ پیسے نہ چکانے والے 1624 بقایا داروں پر ہی ایف آئی آر درج کی گئی ہے جبکہ ان کی تعداد 7265 ہے یعنی قریب 25 فیصدی لوگوں پر ایف آئی آر درج ہوئی ہے جبکہ تین چوتھائی بچ گئے ہیں۔ ان کے پاس بینکوں کے 64434 روپئے بقایا ہیں۔ سرکار نے اعتراف کیا ہے کہ سرکاری بینکوں نے اپریل 2013ء سے جون 2016ء کے درمیان 1.54 لاکھ کروڑ روپئے کے قرض کو بٹے کھاتے میں ڈالا ہے۔ اگر ان بینکوں کی صحت میں بہتری نہیں ہوئی تو دیش شاید ہی ترقی کر سکے۔ مودی سرکار کے لئے یہ چنوتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟