کیا پریورتن ریلی سے یوپی میں بھاجپا کا بنواس ختم ہوگا

وزیر اعظم پیر کو اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ کے امبیڈکر میدان میں پریورتن ریلی ہوئی اس میں آئی بھیڑ نے صوبے کی سیاست کو اور گرما دیا ہے۔ سماجوادی پارٹی کے کنبے میں رسہ کشی سے ماحول پہلے سے ہی گرمایا ہوا تھا۔ وزیر اعظم کی ریلی نے اسے اور گرما دیا ہے۔ ریلی میں زبردست بھیڑ تھی۔ خود وزیر اعظم پریورتن ریلی میں آئے ہجوم کو دیکھ کر گد گد ہوگئے۔ انہوں نے کہا اپنی سیاسی زندگی میں دیش میں تمام ریلیوں کو خطاب کر چکا ہوں لیکن آج زندگی کی سب سے بڑی ریلی کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ ٹوئٹر کے ذریعے انہیں 10 بجے سے ہی ریلی میں بڑی تعداد میں بھیڑ آنے کی اطلاع دہلی میں ملنے لگی تھی۔ رمابائی امبیڈکر پارک کو بھرنا آسان کام نہیں ہے۔ پیر کو وزیر اعظم کی ریلی میں 5 لاکھ سے اوپر لوگوں کا آنا بھی اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ نوٹ بندی کے بعد یہ سب سے کامیاب ریلی تھی۔ کیا نوٹ بندی سے آئی دقتوں کو لوگ بھول گئے؟ یا پھر وہ سپا بسپا کی حکومتوں سے تنگ آچکے ہیں اور اقتدار میں تبدیلی چاہتے ہیں؟ اس ریلی کے بعد بھاجپا میں جوش بھرا ہوا ہے۔ دیش کی سب سے بڑی آبادی والے راجیہ اترپردیش میں بھاجپا کو سہ رخی مقابلے کے بجائے اب ریاست کی حکمراں پارٹی سماجوادی پارٹی کے ساتھ سیدھا مقابلہ ہونے کے آثار لگ رہے ہیں۔ اب جبکہ چناؤ کمیشن نے 5 ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا اعلان کردیا ہے۔ بھاجپا میں خود اعتمادی کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ پارٹی جہاں اپنے آپ میں ریاست میں چاق چوبند ہو چکی تنظیم ہے وہیں باہمی مقابلے کی دوسری بڑی وجہ بسپا کا کھسکتا مینڈیٹ ہے۔ پارٹی کے ایک اعلی نیتا کی مانیں تو بہوجن سماج پارٹی ایک آئیڈیا لوجی تحریک کی اوپج تھی جو کانشی رام کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ رہی سہی کسر دلت ووٹ بٹنے سے پوری ہوگئی۔ ان کے ماننے والوں نے کانشی رام کی محنت کو تو 10 سال تک بھنایا لیکن مایاوتی نے اسے آگے بڑھانے کے لئے کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی۔ اس کے چلتے 2014ء کے عام چناؤ میں ریاست میں وہ اپنا کھاتہ بھی نہیں کھول سکی۔ ریاست کی 403 اسمبلی سیٹوں میں سے صرف10 فیصدی سیٹیں ایسی ہیں جہاں سپا۔بسپا کا سیدھا مقابلہ ہونا ہے اور 41 سے 42 سیٹیں ایسی ہیں جہاں بھاجپا لڑائی میں نہیں ہے۔ باقی تقریباً 360 سیٹوں پر بھاجپا اہم مقابلے میں ہے اور ان 360 سیٹوں پر اس کی سیاسی حریف یا تو سماجوادی پارٹی ہے یا پھر بسپا یا کانگریس۔ سپا سے یوپی کے چناؤ دنگل میں خود کو اس لئے تھوڑا اوپر رکھ رہی ہے کیونکہ سپا کے پانچ سال کے کام کاج کے چلتے لوگوں میں کافی ناراضگی اور غصہ ہے۔وزیر اعظم نریند ر مودی نے پیر کو اس ریلی میں ایک تیر سے کئی حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو نشانے پر لیتے ہوئے یوپی کی تقدیر بدلنے کے لئے ووٹروں سے اسمبلی چناؤ میں حمایت کی اپیل کی تو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کو یاد کرکے لکھنؤ سے سیدھے وابستہ ہونے کی بھی کوشش کی ہے۔ کلیان سنگھ، رام پرکاش گپت اور راجناتھ سنگھ کے عہد کی یاد دلاکر یہ ثابت کرنے میں بھی پیچھے نہیں رہے کہ غیر بھاجپا پارٹیوں کی سرکاروں میں یوپی وکاس کی دوڑ میں پیچھے چھوٹ گیا۔ صوبے میں بھرپور اکثریت کی سرکار بنانے کا بگل بجاتے ہوئے مودی یہ کہنے سے نہیں چوکے کہ پریورتن آدھا ادھورا نہیں ہونا چاہئے۔ مودی نے دعوی کیا اس بار پردیش میں وکاس کے 14 سال کا بنواس ختم ہوگا۔ 14 سال پہلے پردیش کی عوام نے بھاجپا کو یوپی کی سیوا کرنے کا موقعہ دیا تھا۔ بولے یوپی کی تقدیر بدلنے کے لئے صوبے کے لوگوں کو اپنے پرائے، ذات پات سے اوپر اٹھ کر ووٹ کرنا ہوگا۔ دیکھیں کہ چناؤ اعلان سے ٹھیک پہلے ہوئی اس پریورتن ریلی کا یوپی اسمبلی چناؤ پر کیا اثر پڑے گا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟