کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو مانیں گی سیاسی پارٹیاں

سپریم کورٹ کے 7ججوں کی آئینی بنچ نے اکثریت سے جو فیصلہ دیا ہے کہ مذہب، نسل اور ذات ، فرقہ اور زبان کی بنیاد پر ووٹ مانگنا یا چناوی عمل کو متاثر کرنا و عوامی رائے دہندگان قانون کے نکات کے تحت کرپٹ طریقہ مانا جائے گا۔ یقینی طور پر ایک تاریخی اور دور رس فیصلہ ہے۔ بیشک ایسے فیصلے آنے میں 21 سال لگے لیکن لائق خیرمقدم اور لائق تحسین ہے۔ اگر عدالت عظمی کے اس فیصلے کو چناؤ کمیشن موثر ڈھنگ سے نافذ کرنے میں کامیاب ہوجائے تو دیش کی چناوی سیاست کے شدھی کرن کی سمت میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے اس کا درپردہ ثبوت کیا ہے؟ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے۔ چناؤ کمیشن کے پاس یہ سنہرہ موقعہ ہے سپریم کورٹ کے حکم کو سختی سے نافذ کرنے کیلئے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ گائڈ لائنس کی طرح کام کرے گا یا پھر رسماّ میں اسے قانونی طور پر نافذ کیا جاسکے گا؟ بیشک یہ اچھا ہوا کہ سپریم کورٹ نے یہ صاف کردیا کہ ذات، مذہب، فرقہ، زبان کے نام پر ووٹ مانگنے کو کرپٹ چناوی طور طریقہ مانا جائے گا۔ قاعدے سے تو ایسی وضاحت کی ضرورت نہیں پڑنی چاہئے تھی کیونکہ سبھی کو پتہ ہے کہ ذات، مذہب یا زبان اور فرقے کے نام پر ووٹ مانگنا ایک طرح سے ایک طبقے کے خلاف کھڑا کرنا ہے۔ ایسی حرکت سماج کو بانٹنے والی سیاست کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ حالانکہ عوامی رائے دہندگان قانون کے تحت کوئی امیدوار اس طرح سے کسی کو ووٹ دینے کیلئے نہیں کہہ سکتا لیکن سپریم کورٹ کو نیا فیصلہ اس لئے دینا پڑا کیونکہ اسے لیکر غلط فہمی تھی کہ کس کے مذہب ،ذات ، فرقہ یا زبان وغیرہ کا تذکرہ ممنوعہ مانا جائے۔ امیدوار کو یا پھر اس کے حریف کے علاوہ ووٹروں کو؟ اب یہ صاف ہوگیا ہے کہ امیدوار اور اس کے حریف امیدوار کے علاوہ ووٹر کے بھی مذہب وغیرہ کا استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ دیش کو چناوی سیاست میں نفرت کی گلیوں سے نکال کر اتحاد اور سیکولرازم کی آئینی راہ پر لانے والا قدم ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے نیتا اپنی اپنی ذات یا کانفرنسیں بلاتے ہیں جو اپنے امیدواروں کے حق میں ووٹ کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے بھی دلتوں کو پچھڑا اور محروم اور متاثر بتا کر اپنا پروپگنڈہ کرتی ہیں۔ سوال ہے کہ دلت لفظ ذات پر مبنی ہے یا نہیں؟ اس کی تشریح کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ اسی طرح ریزرویشن آئینی سہولت ہے، باوجود اس کے اس کے خلاف مخصوص برادریوں کی تحریکیں چلتی رہتی ہیں۔ عزت مآب جج صاحبان نے یہ فیصلہ دیتے ہوئے رابندر ناتھ ٹیگور کے اس نیشنل الزم کا حوالہ دیاجو تمام گمراہیوں سے نکل کر عالمی انسانیت کی وسیع دہلیز کی طرف لے جاتا ہے۔اس فیصلے پر گہرائی سے غور و خوض کر کے اس کو لاگو کیا جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟