بی سی سی آئی پر چلا سپریم کورٹ کا ڈنڈا
سپریم کورٹ نے آخرکار دنیا کے سب سے امیر کرکٹ ادارے بھارتیہ کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی ) کو لوڈھا کمیٹی کی رپورٹ نہ ماننے اور اس کو مسلسل نظرانداز کرنے پر سخت سزا دی ہے۔ بی سی سی آئی کے اڑیل رویہ کے سبب اس کے خلاف تلخ تیور اپناتے ہوئے چیئرمین انوراگ ٹھاکراور سکریٹری اجے شرکے کوعہدے سے برخاست کرتے ہوئے انہیں سبق سکھا دیا ہے۔ عدالت عظمی نے ان کے بورڈ سے وابستہ سبھی اختیارات کو بھی واپس لینے کا فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ کرکٹ نہ تو کسی کی جاگیر ہے اور نہ ہی کسی کی نجی وراثت۔ لوڈھا کمیٹی کی سفارشوں کی تعمیل میں رکاوٹ ڈالنے اور جھوٹا حلف نامہ دینے کے معاملے میں انوراگ ٹھاکر کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا گیا ہے اور پوچھا کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جائے؟ انوراگ کو اس معاملے میں اگلی سماعت 19 جنوری کو عدالت میں پیش ہوکر جواب داخل کرنا ہے۔ اگر وہ اس معاملے میں معافی نہیں مانگتے تو انہیں جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ عدالت کو اس فیصلے تک پہنچنے کی ضرورت کیوں پڑی اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کروڑوں ہندوستانیوں کا پسندیدہ کھیل کرکٹ کس قدر سٹہ بازی اور کرپشن کے سبب تنازعوں میں گھر گیا تھا یہ دیش دنیا سے چھپا نہیں ہے۔ پھر ان سب میں بی سی سی آئی کوبڑے عہدیداروں و ان کے رشتے داروں کی شمولیت اور اس کے باوجود انہیں بچانے ،چھپانے کی جو کوششیں ہوئیں اسے دیکھتے ہوئے عدالت کی مداخلت لازمی تھی۔ یہ لائق خیر مقدم ہے۔ بی سی سی آئی کے اندر جو کچھ پنپ رہا تھا اس کی شناخت اور علاج کے لئے لوڈھا کمیٹی نے جو سفارشیں دی تھیں بورڈ انہیں نافذ کرنے سے بچنے کے چور دروازے تلاشتا رہا جبکہ 18 جولائی 2016ء کے اپنے حکم میں سپریم کورٹ نے صاف صاف کہا تھا کہ لوڈھا کمیٹی کی سفارشیں پوری طرح سے لاگو کی جائیں۔ بھارتیہ کرکٹ کو سیاستدانوں کی اپنی خواہشات کا کھیل ہونے سے بچانے کے لحاظ سے بھی یہ ایک ضروری فیصلہ ہے۔ غور طلب ہے کہ عدالت نے پچھلے سال 18 جولائی کو دئے اپنے فیصلے میں کرکٹ کنٹرول بورڈ نے وزرا ،ایڈمنسٹریٹو افسران اور 70 سال سے زیادہ عمر والے لوگوں کے عہدیدار بننے پر روک لگا دی تھی۔ بی سی سی آئی لگاتار یہ کہتا رہا ہے کہ لوڈھا سمیتی کی کچھ سفارشیں ٹھیک نہیں ہونے کی وجہ سے وہ لاگو نہیں کی جاسکتیں لیکن اس نے کبھی بھی سفارشیں لاگو کرنے کے معاملے میں تعاون کرنے والا رویہ بھی نہیں اپنایا ہے۔ اگر بی سی سی آئی نے اس معاملے میں اڑیل رخ نہیں اپنایا ہوتا تو شاید عدالت سے اس ایک راجیہ ، ایک ووٹ ، ایک رائے جیسی کچھ سفارشوں پر چھوٹ بھی مل سکتی تھی۔ ابھی بی سی سی آئی ہی نہیں تمام کرکٹ ایسوسی ایشنوں میں یہ سفارشیں لاگو ہونا باقی ہیں اس لئے ابھی تمام وکٹ گر سکتے ہیں۔ لوڈھا کمیٹی نے جو سفارشیں دیں ہیں اسے دیش میں صاف ستھرے کھیل کا ماحول کے پس منظر میں اپنانے کی ضرورت ہے۔ کرکٹ سمیت دیش کے تمام کھیل فیڈریشنوں میں چند سیاستدانوں و حکام کی بالادستی رہی ہے اور یہ دیش میں کھیل دنیا کی درگتی کی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔ آخر کچھ ہی دن پہلے ہم نے دیکھا کہ کس طرح انڈین اولمپک ایسوسی ایشن نے سریش کلماڑی کو باکسن فیڈریشن نے اجے چوٹالہ کو اپنا تاحیات چیئرمین چن لیا تھا؟ دیش آج کرپشن کے خلاف ایک فیصلہ کن لڑائی کے موڈ میں دکھائی دے رہا ہے۔ بلیک منی کے خلاف نوٹ بندی کے سرکاری قدم کا جس وسیع پیمانے پر لوگوں نے ساتھ دیا وہ بتاتا ہے کہ وہ اس سے نجات پانے کا درد سہنے کو تیار ہیں۔ بہتر کو اب یہی ہوگا کہ ایڈمنسٹریٹر کی تقرری کی بعد وہ سفارشیں نافذ کراکر جلدسے جلد نئے چناؤ کے ذریعے عہدیداران کو ذمہ داری سونپی جائے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کرکٹ کے اس مشکل دور میں کہیں کھیل کا نقصان نہ ہو۔ اس قدم سے بی سی سی آئی میں صاف ستھرا پن آنا لازمی ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اصلاح صرف بی سی سی آئی میں ہی کیوں؟ اس دائرے میں تمام ایسوسی ایشنوں کا بھی آنا اتنا ہی ضروری ہے۔ مستقبل میں اگر ایسا ہو سکا تو ہندوستانی کھیلوں کی شکل اور مستقبل میں بہتری آئے گی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں