مئی جون میں ہوسکتے ہیں 13 وارڈوں کے ضمنی میونسپل چناؤ

دہلی میں ایم سی ڈی کے ضمنی چناؤ طے ہوگئے ہیں حالانکہ ان انتخابات کا اتنا اثر راجدھانی کی سیاست پر براہ راست تو نہیں پڑتا لیکن پھر بھی دہلی کے عوام کے موڈ کو تھوڑا بھانپا جاسکتا ہے۔ ایم سی ڈی میں اشوز الگ ہوتے ہیں اور امیدوار کی شخصی ساکھ اور پبلک رابطے سے بہت فرق پڑتا ہے۔ جہاں یہ عام آدمی پارٹی ، کانگریس و بھاجپا تینوں کے لئے ایک چیلنج ہے وہیں ان ضمنی انتخابات میں چناؤ لڑنے کو لیکر نیتا تھوڑے الجھن میں ہیں۔ وہ طے نہیں کرپا رہے ہیں کہ وہ چناؤ لڑیں یا نہ لڑیں۔ 2014ء اور اس کے بعد 2015ء میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں جیت کر ممبر اسمبلی بنے کارپوریشن کونسلروں کے وارڈ خالی ہونے کی وجہ سے13 سیٹوں پر ضمنی چناؤ ہونے ہیں۔ مانا جارہا ہے کہ دہلی اسمبلی کے بجٹ سیشن کے بعد کبھی بھی چناؤ کا اعلان ہوسکتا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ چناؤ مئی کے وسط یا پھر آخر میں ہوسکتے ہیں۔ نیتاؤں میں الجھن کی وجہ بھی تقریباً صاف ہے کیونکہ اگلے سال اپریل میں پھر سے ایم سی ڈی چناؤ ہونے ہیں ایسے میں نیتا ضمنی چناؤ لڑنا گھاٹے کا سودہ مان رہے ہیں کیونکہ ضمنی چناؤ جیت کر کونسلر بننے والوں کی میعاد ایک سال سے بھی کم ہوگی۔ قریب ایک سال پہلے دہلی اسمبلی چناؤ میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں ملی کراری شکست کو بی جے پی بھلا نہیں پا رہی ہوگی۔ حالانکہ بی جے پی پردیش پردھان ستیش اپادھیائے کا کہنا ہے کہ پارٹی ہر طرح کے چناؤکو لیکر سنجیدہ رہتی ہے۔بائی الیکشن(ضمنی چناؤ) کے لئے تیاریاں جاری ہیں۔ رہی امیدواروں کے نام کو اعلان کرنے کی بات ،تو چناؤ کی تاریخ آتے ہیں اس کے بارے میں اعلان کردیا جائے گا۔ تینوں میونسپل کارپوریشنوں کے چناؤ 2017ء میں ہونے ہیں اس سے پہلے ان 13 سیٹوں پر ہونے والے ضمنی چناؤ سیاسی پارٹیوں کے لئے بھی سیمی فائنل جیسا ہوگا۔
اس میں عام آدمی پارٹی کو کامیابی ملتی ہے تو اس سے بی جے پی کو خاصا نقصان ہوگا۔ اگر بی جے پی اسکور کرتی ہے تو عام آدمی پارٹی پچھڑ سکتی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے تال تھوک کر اترنے کا من بنا لیا ہے۔ ذرائع کی مانیں تو پارٹی نے اس کارپوریشن کے 13 وارڈروں میں ہونے والے ضمنی چناؤ میں اترنے کا فیصلہ لے لیا ہے۔ پارٹی ان ضمنی چناؤ میں کسی بھی طرح کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتی۔ اصلی ڈر بھاجپا سے زیادہ کانگریس کو ہے کیونکہ کانگریس کا دہلی میں کوئی وجود نہیں باقی رہا۔ بیشک کانگریس پچھلے کچھ عرصے سے کافی سرگرم ہے پر یہ ووٹروں میں کتنا اثر ڈالتی ہے اس پر سوالیہ نشان ہے۔ غور طلب ہے کہ دہلی میں مکمل اکثریت حاصل کرنے کے بعد کیجریوال حکومت ضمنی چناؤ کرانا چاہتی تھی لیکن اس دوران بورڈ کے امتحانات کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔ پارٹی نے کورٹ میں بھی کہا تھا کیونکہ پوری کارپوریشن کے چناؤ میں ابھی وقت بچا ہے اس لئے پارٹی نے تینوں کارپوریشنوں کے ایک ساتھ چناؤ کرانے کو کہا تھا۔ کورٹ نے 3 ماہ کے اندر چناؤ کرانے کا حکم دیا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!