اسپاٹ فکسرس پرعائد مکوکا ثابت کرنا آسان نہ ہوگا

اسپاٹ فکسنگ کے تار سیدھے طور پر انڈر ورلڈسے جڑے ہیں۔ یہ اندیشہ ہم نے اسی کالم میں دو دن پہلے ہی ظاہر کردیا تھا۔ ابھی تک واضح طور پر داؤد ابراہیم، چھوٹا شکیل کا نام لینے سے بچ رہی دہلی پولیس نے پکڑے گئے سبھی ملزمان پر مکوکا لگانے کے بعد انڈرورلڈ سرغنہ داؤد ابراہیم اور چھوٹا شکیل کے اسپاٹ فکسنگ کنکشن سے جڑے ہونے کی بات کہیں ہے۔ کرکٹر سری سنت ،اجیت چندیلا، انکت چوہان شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق داؤد اور چھوٹا شکیل کے اشاروں پر یہ دونوں کام کررہے تھے۔ انہی کھلاڑیوں پر مکوکا لگانے سے بہرحال ضرور کچھ سوال کھڑے ہورہے ہیں۔ پولیس منظم طور پر جرم کرنے پر مکوکا کے تحت کیس درج کرتی ہے۔ اسپاٹ فکسنگ اور سٹے بازی کے معاملے میں بھی پولیس کا دعوی ہے کہ ملزم برا کام اسی شکل میں کررہے تھے۔ اس معاملے میں سٹے باز کھلاڑی اور ٹیم انتظامیہ کے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ سب داؤد ابراہیم کے لئے کام کررہے تھے۔ دوبئی، کراچی اور پاکستان کے دیگرشہروں سے اس دھندے کو چلایا جارہا تھا۔ انڈر ورلڈ کے لوگ کھلاڑیوں کو دھمکی دیتے تھے۔ کام نہ کرنے پر سبق سکھانے کی بات کرتے تھے۔ دھندے میں سبھی شامل لوگوں کو پیسے بانٹتے تھے۔ قانونی واقف کاروں کا کہنا ہے کہ پولیس نے صرف اپنی کھال بچانے کے لئے مکوکا لگایا ہے تو کچھ اسے ایک دم صحیح بتا رہے ہیں۔ اس معاملے میں تین لوگوں کی ضمانت ہوچکی ہے۔ اس سے پولیس کی کرکری ہوئی ہے۔ اب مکوکا لگانے سے ضمانت لینا بہت مشکل ہوجائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا دلی پولیس ان پر مکوکا ثابت کر پائے گی؟ دلی پولیس نے مکوکا لگانے کی جو دلیلیں پیش کی ہیں اسے ثابت کرنا ٹیڑھی کھیر ہوگا۔ پولیس کے مطابق دلال اشونی اگروال داؤد کے رابطے میں تھا لیکن پولیس نے عدالت میں ایسا نہیں بتایا۔ دیگر ملزمان کو اس حقیقت کی جانکاری تھی یا نہیں ،فکسنگ میں داؤد ملوث ہے پولیس کو یہ ثابت کرنا ہوگا۔ملزم اس حقیقت سے واقف تھے۔ فکسنگ میں جو پیسہ مل رہا ہے وہ ڈی کمپنی یا اس کے اشارے پر دیا جارہا ہے۔ اشونی اگروال کے رابطے پر سبھی کو داؤد کا ساتھی یا پھر گروہ کا ممبر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پولیس نے پہلے سبھی کے خلاف مجرمانہ سازش و دھوکہ دھڑی کا معاملہ درج کیاتھا لیکن بعد میں دفعہ 409 میں جوڑ کر سبھی کی مشکلیں بڑھا دی ہیں۔ اب مکوکا کی پریشانی اور بڑھ گئی ہے۔
ویسے بھی پولیس کا مکوکا معاملوں میں ریکارڈ کوئی حوصلہ افزا نہیں رہا۔ پچھلے 11 سال میں دلی پولیس ایک بھی ملزم کو سزا نہیں دلا پائی۔ مکوکا میں ملزمان رہا ہوتے جارہے ہیں۔ اس کا استعمال سزا دلانے کے بجائے ملزموں کو جیل میں بند رکھنے میں کیاجارہا ہے۔ 2002ء میں دلی میں مکوکا کو نوٹیفائی کرایا گیا۔آج تک اس اسپیشل قانون کے تحت 35 معاملوں میں گرفتار 203 ملزموں میں سے35 فرد جرم عائد کرنے کی اسٹیج پر ہی چھوڑدئے گئے جبکہ 2 بری ہوئے۔ مکوکا میں آج تک دلی پولیس ایک بھی ملزم کو صحیح طور پر سزا نہ دلا سکی۔ کرشن پہلوان ،مرحوم احمد، منا بجرنگی اور کچھ ایسے خطرناک بدمعاشوں کے معاملے ہیں جہاں پولیس نے مکوکا لگایا اور عدالت نے اسے مسترد کردیا۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟