سی آئی سی کا تاریخی فیصلہ:پارٹیاں آر ٹی آئی میں جوابدہ

سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے سیاست میں شفافیت لانے کی راہ ہموار کرتے ہوئے تاریخی فیصلہ سنا دیا ہے۔ سی آئی سی نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں آر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے میں آتی ہیں۔ اپنے54 صفحات پر مبنی فیصلے میں کہا کہ سیاسی پارٹیاں سرکار سے اقتصادی مدد لیتی ہیں ساتھ ہی دفتروں کے لئے زمین اور دفعہ13(a) کے تحت انکم ٹیکس چھوٹ پاتی ہیں۔ یہ درپردہ سرکاری فنڈنگ ہے اس لئے انہیں آر ٹی آئی کے دائرے میں رکھا جانا چاہئے۔ کمیشن کے چیئرمین چیف انفارمیشن کمشنر ستندر مشرا کی فل بنچ نے کانگریس، بھاجپا، مارکسوادی پارٹی، این سی پی، ڈی ایس پی کو آر ٹی آئی کے تحت مانگی گئی اطلاعات کا جواب دینے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ سبھی پبلک ادارے آرٹی آئی قانون کے دائرے میں ہیں۔ کمیشن نے کہا کہ آئین کی 10 ویں شق کے تحت آئینی درجہ بھی رکھتی ہیں۔ انہیں کسی بھی چنے ہوئے نمائندہ پارلیمنٹ یا ممبر اسمبلی کو دلبدل کرنے پر پارٹی سے باہر کرنے کی طاقت بھی حاصل ہے۔ چناؤ کے دوران انہیں سرکار سے فری بیلٹ پیپر چناؤ پبلسٹی کے لئے ٹیلی ویژن ،ریڈیو پر وقت ملتا ہے وہیں رجسٹرڈ ہونے پر چناؤ کمیشن انہیں دفعہ29 کے تحت چناؤ نشان الاٹ کرتا ہے۔ چناؤ کے دوران وہ ان سے خرچ کا حساب بھی مانگتا ہے۔ دفعہ29 کے تحت پارٹیوں کو20 ہزار روپے سے زیادہ کے عطیہ کی تفصیل کمیشن کو دینی ہوتی ہے۔ بنچ نے این سی پی کی یہ دلیل خارج کردی کہ پارٹیوں کو آر ٹی آئی کے دائرے میں لان سے چناؤ کے وقت اپوزیشن پارٹی غیر ضروری عرضیا ں دائر کر پریشان کریں گی اور ان کا کام کرنا مشکل کردیں گی۔ بنچ نے کہا کہ کسی بھی قانون کے جواز کو اور اس کے بیجا استعمال کے اندیشے کی بنیادپر غلط نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ لوگوں کویہ جاننے کا حق ہے کہ چناؤ کے دوران ہونے والے خرچ کا ذریعہ کیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو چناؤ حق قانون کے تحت جمہوریت کیلئے اچھی خبر مانی جائے گی۔ اب پارٹیوں کو جنتا کے سامنے حساب کتاب رکھنا ہوگا اور انہیں کہاں سے کتنا پیسہ ملا اور اس کا استعمال کیسے ہوا۔ اس انقلابی فیصلے کے لئے جہاں ہم اطلاعات حق کمیشن کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں وہیں یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کو شاید ہی یہ منظور ہو کہ انفارمیشن کمیشن اس مسئلے پر ایک سال سے سماعت کررہا تھا اور ایک بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کو چھوڑ کر تمام باقی پارٹیاں اس کی مخالفت کررہی تھیں۔ جمہوریت اقتدار نظام کی بنیاد چناؤ عمل پر ٹکی ہوتی ہے اور یہ ہی سیاسی پارٹیوں کا وجود بنتا ہے۔ پارٹیوں کو تنظیم چلانے چناوی خرچ کے لئے پیسہ اکٹھا کرنے کا حق آئین دیتا ہے۔ دفتروں کے لئے مہنگی زمین کوڑیوں کے بھاؤ کرائے پر عمارتیں دی جاتی ہیں اور ان کی اعلان کردہ آمدنی کو انکم ٹیکس سے چھوٹ ملتی ہے۔ تب اپنی آمدنی اور خرچ کا ذریعہ بتانے یا تفصیل دینے میں اتنی آنا کانی کیوں؟ہماری سیاسی پارٹیاں بیشک خود کو غیر سرکاری کہتی ہیں لیکن جب چناؤ لڑتی ہیں تو یہ شکل سرکار میں بدل جاتی ہے اور جب وہ سرکار کی شکل اختیار کرلیتی ہیں تو انہیں قانون بنانے کا حق بھی بھارت کا آئین دیتا ہے۔سرکار میں شفافیت لانے کے مقصد سے ہی آر ٹی آئی قانون بنایا گیا تھااب یہ ہی پارٹیاں اس کی مخالفت کررہی ہیں۔ کانگریس کے میڈیا انچارج ،جنرل سکریٹری جناردن دویدی کہہ رہے ہیں کہ ہم اس سے پوری طرح غیر متفق ہیں۔ ہمیں یہ قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس طرح کے انقلابی قدم کے چکر میں ہم کہیں بڑا نقصان نہ کرلیں۔ کانگریس کی رائے سے مارکسوادی پارٹی بھاجپا کی اتحادی پارٹیاں جنتا دل (یو) بھی متفق نظر آئی۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا ہے جسے چھپانے میں ان پارٹیوں کو ملکی مفاد و جمہوری مفاد میں لگتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی آمدنی آج سینکڑوں کروڑوں میں ہے اس کے باوجود تفصیل دینے کی ذمہ داری سے بھاگنا اگر دال میں کالا جیسا اندیشہ لگتا ہے تو تعجب کیسا۔پارٹیوں میں ویسے ہی جمہوریت کی کمی ہے اور شخص یاپریوار خاص کے ارد گرد پارٹی کی کمان اس سے نمٹنے کے پیچھے اس آمدنی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ ہمارا تو خیال ہے کہ انفارمیشن کمیشن کا یہ قدم اگر مختلف سیاسی پارٹیاں مان لیں تو ان کی نہ صرف ساکھ سدھرے گی بلکہ زیادہ ذمہ دار اور پروفیشنل بنے گی۔
  1. (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟