سونیا گاندھی کی بھی نہیں سنتے منموہن سنگھ؟

ایک زمانہ تھا جب یہ کہا جاتا تھا بھارت کا پردھان منتری لوک سبھا سے چنا جانا چاہئے۔قاعدے کے مطابق لوک سبھا کا لیڈر پی ایم ہی ہوتا ہے لیکن ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے تو ساری روایت ہی توڑ کر رکھ دی ہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ پانچویں مرتبہ راجیہ سبھا سے چنے گئے ہیں یعنی کے پچھلے 30 سالوں سے وہ راجیہ سبھا میں ہیں اگر وہ لوک سبھا کا چناؤ لڑتے تو جنتا کی نبض کا کچھ اندازہ ہوتا ۔ اسی لئے ایک ٹپیکل افسر شاہ کی طرح برتاؤکرتے ہیں۔ پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ کانگریس صدر سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس خبر کی تنقید کی گئی اور یہ بتانے کی کوشش کی کے ان میں اختلاف نہیں ہیں اور سونیا گاندھی نے پبلک لائیو سے منموہن سنگھ کی پیٹھ تھپتھپائی تھی لیکن جب سونیا کے خاص کہے جانے والے منموہن سنگھ کی تو سونیا کی بھی نہیں سنتے تو اس کو تو سنجیدگی سے ہی لینا پڑے گا۔ یوپی اے چیئرپرسن محترمہ سونیا گاندھی کی سربراہی والی قومی مشاورتی کونسل سے کنارہ کرتے ہی سماجی رضاکار ارونا رائے نے وزیر اعظم منموہن سنگھ پر براہ راست تلخ تبصرہ کرڈالا۔ وزیر اعظم پر سونیاگاندھی کی بھی نہ سننے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ منریگا میں کم از کم مزدوری پر منموہن سنگھ کانگریس صدر کی صلاح کو نظرانداز کردیا حالانکہ کانگریس نے ارونا کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے وزیراعظم اور سونیا گاندھی کے درمیان اختلافات کی بات کو مسترد کردیا مگر ارونا کے اس تلخ تبصرے نے گزشتہ کئی دنوں سے سرکار اور پارٹی کے درمیان اختلافات سے متعلق قیاس آرائیوں کو پھر سے طول دے دیا ہے۔ عام جنتا کو اطلاعات کا حق دلانے کے لئے زبردست جدوجہد کرنے والی ارونا رائے نے 7 فیصدی غریبوں کی پریشانی سے اتفاق ظاہر کرتے ہوئے قومی مشاورتی کونسل کو چھوڑدیا ہے۔ ان کا کہنا ہے سرکار نے منریگا میں مزدوروں کی کم از کم مزدوری بڑھانے کے معاملے میں ہی نہ صرف نظرانداز کیا بلکہ غذائی سکیورٹی کو لیکر بھی رویہ ٹال مٹول والا رہا۔ اس لئے انہوں نے سسٹم سے تنگ آکر سونیا گاندھی کی سربراہی والی قومی مشاورتی کونسل کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ارونا رائے کا استعفیٰ اس خیال کو کمزور کرتا ہے کہ منموہن سرکار اور سونیا کے درمیان سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ ان کی مانیں تو دونوں کے درمیان سرکاری پالیسیوں کو لیکر نظریئے میں بنیادی فرق پایاجاتا ہے۔ یہ ہی فرق حکومت اور سونیا کے درمیان اختلافات کی اصل وجہ ہے۔ سونیا گاندھی چاہتی ہیں کہ سرکار سماجی اشوز کو ترجیح دے جبکہ منموہن سنگھ ی ترجیح میں وہ نہیں ہیں۔ منریگا میں کم از کم مزدوری دینے کی کونسل کی سفارشوں کو سرکار کی منظوری نہ ملنے پر سونیا خفا بتائی جاتی ہیں رائے کا استعفیٰ بھی اسی ناراضگی کا ایک حصہ ہوسکتا ہے۔ منموہن سنگھ سرکار کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ نہ تو عام جنتا سے جڑی پالیسیوں کو نافذ کرپارہی ہے اور نہ ہی دیش میں اچھا کاروباری ماحول بنانے میں کامیاب ہورہی ہے جبکہ تکنیکی اقتصادی ترقی کے نام پر سماجی ایجنڈے کو نظرانداز کررہی ہے۔ سونیا اسے گیم چینجر مانتی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟