جہادی آتنک واد سے کہیں زیادہ خطرناک ماؤ وادی دہشت گردی ہے
ہمارے دیش کی سب سے بڑی چنوتی لا اینڈ آرڈر سیکٹر میں دہشت گردی سے نمٹنا ہے۔یہ اتنی سنگین شکل اختیار کرتی جارہی ہے جس کا سرکاریں نہ تو صحیح طریقے سے تجزیہ کرپارہی ہیں اور نہ ہی اس سنگین چیلنج سے نمٹنے کے لئے دوررس حکمت عملی طے کرپارہی ہیں اور جب تک یہ نہیں ہوگا یوں ہی ہمارے سکیورٹی جوان اور سیاستداں مرتے رہیں گے۔ نکسلی اور ماؤواد میں فرق ہے۔ اب جو ہورہا ہے وہ ماؤ واد ہے ،نکسلواد غریب کسانوں و زمینداروں کے مظالم اور سرکار کی لاچاری کے خلاف زراعت سے جڑی تحریک تھی۔اب جو ہورہا ہے وہ تو جنگ پانے کے لئے بندوق کی حکمت عملی پر عمل میں لایا جارہا ہے۔ ان ماؤوادیوں کا مقصد اقتدار ہتھیانا ہے اور اس کام میں وہ کسی کی بھی مدد لینے سے نہیں کتراتے۔ ماؤوادی مخالف مہم میں لگی سکیورٹی ایجنسیوں کی سنسنی خیز تازہ رپورٹ ہاتھ لگی ہے جو میری بات کی تصدیق کرتی ہے۔ ایجنسیوں کو ملی جانکاری کے مطابق نکسلیوں اور ماؤوادیوں کو جرمنی، ترکی اور فلپائن سمیت 27 ملکوں کی ماؤ وادی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔ ان سبھی ماؤ وادی تنظیموں کو وہاں کی سرکار نے دہشت گردتنظیم قرار دے رکھا ہے۔ ان میں سے کئی تنظیموں نے ماؤ وادیوں کو شہری درمیانے طبقے کا بھروسہ جیتنے کی حکمت عملی پر کام کرنے کی صلاح دی ہے۔ سکیورٹی ایجنسیوں کے باخبر ذرائع کے مطابق بھارت میں سی پی آئی (ماؤ وادی) کے پولٹ بیورو کے نمبر 2 مانے جانے والے کرکم سدرشن نے اپنے کیڈر کو لکھی چٹھی میں غیر ملکی حمایت کا ذکر کیا ہے۔ سکیورٹی فورس کو یہ چٹھی قریب دو مہینے پہلے چھتیس گڑھ کے گول کنڈہ میں کی گئی چھاپہ ماری کے دوران ہاتھ لگی تھی۔ سکیورٹی حکام کے مطابق25 مئی کو چھتیس گڑھ کے سکما میں کانگریسی لیڈروں پر کیا گیا بربریت آمیز حملہ سدرشن کی رہنمائی میں ہوا۔ نارتھ ایسٹ میں سرگرم آتنکی تنظیم پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے گرفتار نکسلی انتہا پسندوں نے نکسلیوں کو انتہائی حساس ترین اطلاعاتی تکنیک کے سازو سامان و ہتھیار چین میں موجود پرانی ماؤ وادی تنظیموں کی جانب سے سپلائی کئے جاتے ہیں۔ چین میں ابھی بھی ماؤتسے تنگ کی پیپلز وار کی گائڈ لائن پر کام کرنے والے لوگوں کا بڑا طبقہ موجود ہے۔ اسی طرح ماؤ کمیونسٹ پارٹی (ترکی) فلپائن ،جرمنی، فرانس،کیوبا، جنوبی افریقہ کے کئی سرگرم آتنکی تنظیمیں آپس میں جڑی ہیں۔ بھارت جیسے وسیع ملک میں اپنی سرگرمیاں چلانے کیلئے پیسہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اس فرنٹ پر بھی ماؤوادی بہت مضبوط ہیں۔ بیرونی ممالک سے انہیں کہاں کہاں سے اتنا پیسہ ملتا ہے اس کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن بھارت کے خفیہ حکام کے مطابق ایک میرا اندازہ ہے کہ یہ ماؤ وادی دیش میں ہر سال تقریباً ایک ہزارکروڑ کی کھیپ وصولتے ہیں۔ ان میں سے30 فیصد حصہ اکیلے چھتیس گڑھ سے جاتا ہے۔ بستر میں یہ جو وصولہ جاتا ہے ان میں سے50 فیصدی رقم ماؤ وادیوں کے سینٹرل کمان میں بھیجی جاتی ہے۔ باقی 50 فیصدی کھانے پینے ، وردی اطلاع اور پوسٹر وگولہ بارود اور جدید ترین ہتھیار خریدے جاتے ہیں۔ خفیہ اطلاعات کے لئے مضبوط مخبر سسٹم ہے ۔ مخبروں کو پیسہ دیا جاتا ہے۔ ان ماؤ وادیوں عرف نکسلیوں کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تعمیراتی کام و تیندوپتا اور پنچایتی سسٹم ہے۔ ماؤ وادی زیر اثر علاقوں میں جو عمارتیں (سرکاری) بنائی جاتی ہیں اس کے عوض میں انہیں کمیشن ملتا ہے۔ پنچایتوں میں جتنے کام ہوتے ہیں اس میں نکسلیوں کا حصہ بندھا ہوتا ہے۔ 2005 ء میں جب 500 سے زیادہ گرام پنچایت پرمکھوں سے استعفیٰ دلایا تھا جس سے ان کی آمدنی کم ہوگئی تھی۔ اس کے بعد نکسلیوں نے کبھی گرام پنچایتوں کو نہیں چھوڑا۔ ہر نکسلی اپنے مہینے کی تنخواہ سے ایک دن کی تنخواہ عطیہ میں دیتا ہے۔ بستر میں تیندو پتے کا کروڑوں کا ٹھیکہ ہوتا ہے۔ نکسلیوں کو بغیر پیسے دئے پتے کی تڑائی نہیں ہوتی۔ اس علاقے کے چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والوں کو ماؤ وادی سرکار کی طرح سے ٹیکس وصولتے ہیں۔ ماؤ وادی اپنے آپ کو سیاسی پارٹی بتا کر باقاعدہ چندہ وصولتے ہیں۔ تنظیم سے جڑے لوگوں کو ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ کل ملاکر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جہادی آتنک واد سے کہیں زیادہ خطرناک ماؤ وادی آتنک واد ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں