محض جوا نہیں یہ تو ٹیررفائننسنگ سے جڑا ہے

جوا کھیلنے کی دیش واسیوں کی عادت بہت پرانی ہے۔ یہ مہا بھارت کے دور سے چلی آرہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے سٹے بازی کا کھیل اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ بکسے، کھوکے کے درمیان چلنے والا سیکریٹ کرکٹ کا کالا بازار اب سٹے بازی کی شکل لے چکا ہے۔ عالمی سطح پرچلنے والے اس کالے کاروبار میں راجدھانی میں اکیلے ہی قریب1500 بڑے دلال بے خوف اس دھندے سے جڑے ہوئے ہیں۔ راجدھانی میں یہ دلال ایک دن میں تقریباً400 سے500 کروڑ روپے کا دھندہ کر بھاری رقم کما لیتے ہیں۔ یہ سٹہ آخر کھیلا کیسے جاتا ہے؟ سٹے سے جڑے ایک کاروباری نے بتایا سٹے کا جنم وہاں سے ہوتا ہے جب ہم کوئی شرط لگاتے ہیں۔ کوئی شرط میں کہتا ہے کہ آج انڈیا جیتے گی تو کوئی کہتا ہے بری طرح ہارے گی اور اپنی بات کو صحیح اور دوسرے کی بات کو غلط بتاتے ہوئے تب کہتے ہیں ہو جائے 50-50 روپے کی شرط۔ یہ شرط سٹے کا دوسرا نام ہے۔ پہلے سٹہ اسی طرح گھروں یا دفتروں میں مستی کے لئے کھیلا جاتا تھا لیکن 80 کی دہائی میں جب انڈرورلڈ نے اس میں دلچسپی لی تو یہ پریشان کن دھندہ بن گیا۔ آج یہ کروڑوں روپے کا دھندہ چل رہا ہے۔ سٹے کے اس پیشے میں بنیادی طور سے دو کردار ہوتے ہیں دلال اور پنٹر۔دلال اسے کہا جاتا ہے جو بازی لیتا ہے اور جو بازی لگاتا ہے اسے پنٹر کہتے ہیں۔ کسی بھی میچ میں ہار جیت کا کتنا بھاؤ رہے گا یہ طے کرنے کا حق صرف دلال کو ہوتا ہے۔ پنٹر اس بھاؤ پر کوئی سوال نہیں اٹھاسکتا۔ اسے اسی بھاؤ پر یا تو کھیلنا پڑے گا یا پھر خاموش رہنا پڑے گا۔ لندن کی ایک ویب سائٹ’ بیٹ فیئر ‘ کسی میچ میں کسی ٹیم کی جیت ہار کا جو بھاؤ وہ فکس کرتی ہے عموماً اسی بھاؤ کو دلال انڈیا میں بھی اپناتے ہیں لیکن ہر گیند یا رن ریٹ دلال اپنے حساب سے میچ کی بدلتی تصویر سے فکس کرتے ہیں۔ مثلاً اگر 30 گیند پر 30 رن جیت کے لئے باقی ہیں اور وکٹ5 باقی ہیں تو دلال سٹے کا ریٹ بہت کم رکھتا ہے۔ اگر12 گیندوں میں 30 رن کا چیلنج کسی ٹیم کے پاس ہے تو فطری ہے کہ سٹے کا بھاؤ اسی حساب سے بڑھ جاتا ہے۔ اس کھیل کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ محض جوا نہیں جو نفع نقصان کے لئے کھیلا جاتا ہے۔
ممبئی پولیس نے ایک عدالت کو بتایا کہ آئی پی ایل میچ میں سٹے بازی سے ہونے والی کمائی کا استعمال دہشت گردوں کو پیسہ دینے کے لئے ہو رہا ہے پولیس نے عدالت کو سٹے بازی کا گیم کتنا بڑا ہے اس کی جانکاری بھی دی۔ اس میں ہزاروں تاجر اور بزنس مین شامل ہیں۔ یہ لوگ بھارت میں ایک لینڈ لائن نیٹ ورک کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں اور آئی پی ایل سیزن میں روز کروڑوں روپے کی سٹے بازی لگاتے ہیں۔ ممبئی کرائم برانچ نے عدالت کو بتایا کہ انگلش بیٹنگ سے جو پیسہ آرہا ہے اسے کسی طرح دوبئی کے راستے پاکستان بھیجا جارہا ہے۔ پیسہ بھیجنے کے لئے حوالہ چینل کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پولیس انسپکٹر نند کمار گوپالے نے بتایا کہ ہم اس بات کو ثابت کرسکتے ہیں کہ کیسے پیسہ دوبئی بھیجا جارہا ہے اور اس کے بعد پاکستان پہنچ رہا ہے۔ اس پیسے کا استعمال شاید دہشت گرد تنظیموں پیسہ دینے کے لئے ہورہا ہے۔ اگر ہمیں معاملے کی جانچ کرنے کا موقعہ ملتا ہے تو ہم اس کنکشن کو ثابت کرسکتے ہیں۔ ہمارے پاس 30 انٹرنیشنل ٹیلی فون نمبروں کی فہرست ہے اس کا استعمال دہشت گردی یا دہشت گرد تنظیمیں کررہی تھیں۔ ہمیں اس معاملے کی اور جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کے میں نے کہا یہ محض جوے کی بات نہیں رہی بلکہ یہ تو دہشت گردی سے جڑتی نظر آرہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!