’پان سنگھ تومر‘۔’وکی ڈونر‘ جیسی فلموں کا سنمان ہونا چاہئے

اس بار کے نیشنل فلم ایوارڈ بالی ووڈ کے لئے اچھی خبر لے کر آئے۔ ہندی سنیما کا سر فخر سے اونچا ہوگیا۔فخر اس لئے نہیں ہے کہ 100 کروڑ کلب کی فلم کو ایوارڈ نہیں ملا بلکہ اس لئے کہ ایوارڈ کے لائق فلموں کا سنمان کیا گیا۔ یہ ان لوگوں کے لئے ایک کرارا جواب ہے جو کسی فن کو محض پیسوں تک محدود کردیتے ہیں۔ ’پان سنگھ تومر‘ اور ’وکی ڈونر‘ جیسی فلموں کو سراہا کر ناظرین نے یہ بھی جتادیا کے مار دھاڑ، پیڑوں کے پیچھے رومانس کرنے یا پھر بیرونی ممالک میں شاندار خوبصورت جگہوں پر شوٹ ہوئی فلمیں انہیں پسند آئیں یہ ضروری نہیں۔ فلم کی کہانی اس میں کردار کو نبھانے کو بھی اب سنمان ملنا شروع ہوگیا ہے۔ یہ اچھا اشارہ اس لئے بھی ہے کیونکہ بالی ووڈ ہی کیوں ورلڈ سنیما اب پوری طرح سے کمرشل ہوتا جارہا ہے اور فلم کی کامیابی محض باکس آفس پر ٹک جاتی ہے۔ اس بار کے ایوارڈ ز نے اس ترمیم کی طرف نشاندہی کی ہے۔ ’پان سنگھ تومر‘ کہانی اور گینگس آف واسے پور، وکی ڈونر جیسی فلم بازو تفریح والی فلمیں نہیں ہیں۔ ’پان سنگھ تومر‘ کے لئے بیسٹ ہدایت کاری کا ایوارڈ لتمنگو پھلیا کو ملنا قابل تعریف ہے۔ انہوں نے فلم کی کہانی کو اس طریقے سے پردے پر اتارا کے اس کی بات اور گہرائی سے سامنے آئے۔ جو بھی فلموں کو اس بار ایوارڈ دیا گیا ہے ان میں ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ناظرین سنیما ہال سے باہر نکلتے ہی انہیں بھول نہیں پاتے۔ بیسٹ ایکٹر کا ایوارڈ پانے والے عمر داز وکرم گوکھلے اور نوجوان اداکار عرفان خان الگ ہی زمرے کے اداکار ہیں۔ ایوارڈ پانے کے بعد عرفان نے کہا میں کافی خوش ہوں ،اس سے بڑی خوشی یہ ہے کہ میرے پرستار خوش ہیں۔ ایوارڈ کے لئے یہ بات بہت معنی رکھتی ہے کہ کس کام کے لئے آپ کو ایوارڈ ملا ہے۔ ’پان سنگھ تومر‘ ایک نئی طرح کی کوشش تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں کمرشل سنیما دائرہ بڑھانا ہوگا۔ جنتا بھی چاہ رہی ہے نئے طرح کا سنیما دیکھیں۔ ہم نے تفریح کی شکل میں جو کمرشل کی تشریح بنا رکھی ہے وہ فلموں کے لئے بہت بڑی نا انصافی ہے ہم اسے بدلیں گے۔ ہم تو بغاوت کرنے آئے ہیں ،بغاوت ہی کریں گے۔ ایوارڈ نہ بھی ملتا تو ہم یہ ہی کہتے ۔ عرفان کا کہنا تھا کہ مجھے وکی ڈونر فلم بھی اچھی کوشش لگی۔ حقیقت میں جو بھی ہورہا ہے اس کو پردے پر لانا ہمت والا کام تھا جو ڈائریکٹر نے ، آیوش مان کھورانہ اور انوکپور نے بخوبی نبھایا۔ اس فلم کو ایوارڈ ملنا چاہئے تھا۔ خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ نیشنل ایوارڈ میں پیسہ نہیں چلتا۔ کئی دیگر فلمی ایوارڈز میں، ٹی وی ایوارڈ میں سنا ہے کہ پیسوں سے ایوارڈ خریدہ جاتا ہے۔ یہ نیا پن کہیں سے اڑ کر نہیں چلا آیا۔ لمبے عرصے سے بالی ووڈ یہ ہی بھولتا آرہا تھا کہ فلم سماج کو متاثر کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ناظرین یہ ہی چاہتے ہیں تو ہم ان کے دل کی بات ماننے کو مجبور ہیں۔یہ کہنا ہے بالی ووڈ کے زیادہ تر فلم پروڈیوسروں کا کہ اداکاروں کی نئی پود نے ناظرین اور کمرشل اینگل دونوں کو ایک ساتھ پرکھنا شروع کردیا ہے اور اپنا فن کا لوہا منوالیا ہے۔ ایسے میں سنیما نئی شکل اختیارکررہا ہے۔ یہ اس تعمیری نظریئے کا اعزاز ہے جو تکنیکی نقطہ نظر سے مکمل ہے ۔ گڑھے ہوئے فارمولے سے بھی بالی ووڈ کو اپنے دائرے سے باہر آنے پر مجبور کررہی ہے۔ اس سال کے نیشنل ایوارڈ اس نظریئے کو مضبوط فراہم کریں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟