آتنک واد کو بڑھاوا دینے کا کام کررہے ہیں عمر عبداللہ

دہلی پولیس کے ذریعے گرفتار حزب المجاہدین کے جنگجو لیاقت شاہ معاملے میں ایک نیامتنازعہ موڑ اس وقت آیا جب جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے لیاقت معاملے میں وزیر داخلہ سشیل کمار شندے سے بات چیت کی۔اس کے بعد وزیر داخلہ نے لیاقت کی گرفتاری معاملے کو دہلی سرکار سے این آئی اے کو منتقل کردیا۔ عمر عبداللہ نے سوال کیا کیا لیاقت سرنڈر ہونے کے لئے اپنے خاندان کے ساتھ آیا؟ سوال یہ اٹھتا ہے کہ عمر عبداللہ کس منہ سے یہ سوال جواب کرسکتے ہیں؟نیشنل پینتھرز پارٹی کے چیف پروفیسر بھیم سنگھ نے حکومت ہند کو خبردار کیا ہے کہ سرنڈر کردہ آتنکوادیوں کی باز آبادکاری کی پالیسی کے بہانے عمر سرکار آتنک واد کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ جس سے جموں و کشمیر میں آئی ایس آئی کے ادھورے ایجنڈے کو پورا کیا جارہا ہے۔ ایک ایمرجنسی پریس کانفرنس میں پروفیسر بھیم سنگھ نے کئی سوال اٹھائے جنہیں مبینہ باز آبادکاری پالیسی کو سمجھنے کے لئے ان کے جواب دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ ایک پاکستانی شہری کو نیپال میں داخل ہونے کیسے دیا گیا؟ پھر یہ لوگ سرحد پار کر بھارت میں کیسے داخل ہوئے؟ کیا باز آبادکاری پالیسی پاکستان اور نیپال کے ساتھ کئے گئے بین الاقوامی معاہدے سے بھی اوپر ہے جو ان کے شہری بھارت میں داخل ہوسکیں؟ کیا نیپال سمجھوتے کے تحت غیر ملکیوں کو نیپال کے راستے بھارت میں بغیر شناختی کارڈ داخل ہونے کی اجازت ہے؟ باز آبادکاری پالیسی سیدھے سیدھے بھارت کے آئین میں مداخلت کرتی ہے۔ خاص کر شہری قانون کے تحت۔ایک پاکستانی شہری کو ہندوستان میں داخل ہونے کیسے دیا گیا اور پھر اسے جموں و کشمیر میں گھسنے میں ریاستی حکومت نے مدد دی۔ جس میں بھارت حکومت کا درپردہ تعاون رہا؟ جموں و کشمیر پولیس نے مرکزی وزیر داخلہ کو اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں کچھ آتنکی بھارت میں خودسپردگی کرنے والے ہیں لیکن اس معاملے سے اس پر شش و پنج بنا ہوا ہے۔ جموں و کشمیر کے سینئر افسر کے مطابق بازآبادکاری عمل کے تحت آئندہ دنوں میں چار آتنکی بھارت میں داخل ہونے والے ہیں۔ ذرائع کی مانیں تو ان میں ایک آتنکی کشمیر کے ڈوڈہ علاقے کا کمانڈر رہ چکا ہے جبکہ دو آتنکی پلوامہ وادی سے تعلق رکھتے ہیں۔ حکومت ہند نے خود تسلیم کیا ہے کہ قریب250 ایسے لوگ اپنے آپ کو کشمیری بتاتے ہیں۔ دہلی کے راستے جموں و کشمیر میں داخل ہونے دیا گیا جن کے پاس جموں وکشمیر سرکارکے شناختی کارڈ تھے۔ یہ کارڈ ان لوگوں کو جاری کئے جاتے ہیں جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہیں اور جو نیپال میں داخل ہوتے ہیں۔ جموں وکشمیر کے وزیر اعلی اور آئی ایس آئی کے درمیان ایک یقینی معاہدے کے تحت جموں و کشمیر میں بسائے جاتے ہیں، یہ کہنا ہے پروفیسر بھیم سنگھ کا۔ اور یہ سراسر دھوکہ دھڑی ہے اور قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ مرکزی سرکار بھی اس پر فکر مند ہے تبھی تو ان باز آبادکاری پالیسی کا جائزہ لینے کی بات کررہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟