بھارتیہ دباؤ کے سبب اٹلی نے اپنے ملزم مرین واپس بھیجے

کیرل ساحل سے دور دو ہندوستانی ماہی گیروں کے قتل کے ملزم دونوں اطالوی مرین کا جمعہ کے دن ہندوستان لوٹنا ہندوستانی ڈپلومیسی و سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے۔ان دونوں اطالوی بحری جوانوں کو بھارت نہ بھیجنے کے اٹلی کے پرانے فیصلے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان جو ڈپلومیٹک بحران کھڑا ہوگیا تھا۔ اب اٹلی کے تازہ فیصلے نے یقینی طور پر اس بحران کو ختم کردیا ہے۔ قابل غور ہے کہ اٹلی نے جب یہ خبر دی کے انتخابات میں ووٹ دینے کیلئے ہندوستانی سپریم کورٹ سے خاص اجازت لیکر اٹلی آنے والے دونوں ملزم اب بھارت نہیں لوٹیں گے تو عدالت ہذا نے اس پر سخت نوٹس لیا اور بھارت نے اٹلی کے مقیم سفیر کو ملک چھوڑنے پر پابندی لگا دی تھی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اطالوی سفیر نے ملزموں کی واپسی کی گارنٹی سے متعلق حلف نامہ دیکر اپنا سفارتی اختیار کھو دیا ہے لیکن جمعہ کو جب دونوں ملزمان واپس بھارت آ گئے تو سبھی نے راحت کی سانس لی ہے۔ یہ بحران غیر متوقع طور پر کھڑا ہوگیا تھا۔اب ایسی نظیر تاریخ میں کہیں نہیں ملتی جس میں کوئی دیش دوسرے دیش کی سپریم کورٹ کے سامنے کوئی وعدہ کرے اور پھر اس سے مکر جائے۔ بھارت کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس صورتحال کا سامنا کیسے کرے؟ بھارت اور اٹلی کے رشتے کبھی خراب نہیں رہے لیکن اس سلسلے میں بے مطلب کی کڑواہٹ مستقل طور پر آجاتی۔ ویسے اٹلی کا یو ٹرن یوں ہی نہیں ہوا۔ ہندوستانی سپریم کورٹ سے کئے گئے وعدے کے مطابق اپنے بحری جوانوں کو مقدمے کے لئے اس نے واپس بھیج تو دیا لیکن تحریری گارنٹی کے بدلے اٹلی نے بھارت سے وعدہ لیا ہے کہ اسکے بحری جوانوں کو موت کی سزا دلائی جائے گی۔ وہیں اس سفارتی بحران کے حل کے لئے بھارت کو رعایت کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت کے کئی سفارتی داؤ بھی چلنے پڑے ہیں لیکن یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ قانون کے واقف کار مانتے ہیں کہ سرکار ایسا بھروسہ دے رہی ہے جس میں سزا طے کرنا عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے نہ کہ اس کے۔ سرکار کا فیصلہ اچانک نہیں تھا۔ کیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قتل جیسے گھناؤنے جرائم کا ملزم سپریم کورٹ سے وعدہ کرکے باہر جانے کی اجازت لے اور واپس آنے کیلئے شرطیں رکھے؟ اٹلی کے بحری جوانوں نے کچھ ایسا ہی کیا ہے۔ پہلے تو اٹلی نے انہیں بھیجنے سے منع کردیا۔ جب بھارت و سپریم کورٹ نے دباؤ بنایا تو واپس بھیجا لیکن تحریری وعدے کے ساتھ۔ ان کے علاوہ اٹلی حکومت کو بھارت سرکار نے یہ بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ بحری جوانوں کے اخلاقی حق کی حفاظت اور مقدمہ پورا ہونے تک انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ جب تک مقدمہ چلتا رہے گا وہ دونوں اٹلی سفارتخانے کے ہاسٹل میں ہی رہیں گے۔ لیکن یہ صاف ہے کہ دونوں ہندوستانی عدلیہ کے سامنے پیش ہوتے رہیں گے اور ان کے قصوروار یا بے قصور ہونے کا فیصلہ ہندوستانی عدالتیں ہی کریں گی۔ اب حکمراں فریق اپوزیشن میں دوڑ لگ گئی ہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اٹلی کے ملزمان کو واپس بھیجنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ہندوستانی عدلیہ کا سچائی اور وقار بڑھا ہے۔ کیرل کے وزیر اعلی اومن چانڈی نے کہا یہ بات واضح طور سے ثابت ہوگئی ہے کہ کوئی بھی دیش بھارت کی سرداری کو لیکر سوال نہیں کرسکتا۔ وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا فیصلے کے بارے میں مناسب عمل کے ذریعے میں اس سلسلے میں سپریم کورٹ کو مطلع کیا جائے گا اور وہ خود پارلیمنٹ کو جانکاری دیں گے۔ وزیر مملکت داخلہ آر پی این سنگھ نے کہا وزیر اعظم اور یوپی اے چیف کے سخت رویئے کے سبب مرین کو واپس بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ بڑی اپوزیشن جماعت بھاجپا کے ترجمان راجیو پرتاپ روڑی نے کہا کہ یہ سب اپوزیشن پارٹیوں کی اجتماعی کوشش کا نتیجہ ہے اور انہوں نے دباؤ بنایا اس کے بعد حکومت نے اس مسئلے پر سخت موقف اپنایا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو سرکار کے ٹال مٹول رویئے سے اٹلی ملزمان کو بھیجنے کے لئے شاید ہی راضی ہوتی۔ مارکسوادی پارٹی کے گوروداس داس گپتا نے کہا یہ اچھا ہے کہ اٹلی نے ملزم فوجیوں کو واپس بھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس کا سہرہ صرف بھارت سرکار کو نہیں دے سکتے۔ حقیقت میں اس کا سہرہ پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور بین الاقوامی دباؤ کو جاتا ہے۔ چلو دیر آید درست آید۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟