پرویز مشرف کی وطن واپسی
پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف جان لیوا حملے کی طالبانی دھمکی کے باوجود پاکستان بچانے کاعزم کرکے 8 سال بعد لوٹ آئے ہیں۔ ان کی ہمت اور جذبے کی داد دینی پڑے گی کہ وہ پاکستان میں پیدا ان کے تئیں شک و شبہات کو درکنار کرتے ہوئے پھر تاریخ کو اپنے ساتھ کھڑا کریں گے۔تاریخ دوہرانے کے محاورے کے باوجود واقف کار مانتے ہیں کہ جنرل مشرف کے لئے پاکستان میں اپنے آپ کو پہلے کی طرح کھڑا کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر پوت کے پاؤں پالنے میں دیکھنا کسی کا ابتدائی عمل کا نتیجہ بنتا ہے تو مشرف کا بے جان خیر مقدم اور ان کا مستقبل کا عکس دکھائی پڑتا ہے۔ جوپاکستان میں11 مئی کو ہونے والے طالبانی چناؤ میں شرکت کرنے کے مقصد سے آئے ہیں۔حالانکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی موجودگی سے چناوی جنگ کی شکل بدل سکتی ہے۔مشکل یہ ہے کہ ان کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ کا کوئی مضبوط تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہے۔ پارٹی میں تجربے کار سیاستدانوں کی کمی ہے۔ اپنے عہد میں مشرف نے جن سیاستدانوں کو تحفظ دیا تھا وہ آج دیگر پارٹیوں سے جڑ گئے ہیں۔ مشرف اپنے لئے کیڈر تک تیار نہیں کرسکے۔ ایک کمزور تنظیمی ڈھانچے کے سہارے مشرف کیا کچھ کرپائیں گے کہا نہیں جاسکتا۔ اب چناؤ میں قریب ڈیڑھ مہینہ باقی ہے۔ اتنے دن میں تنظیم کوکھڑا کرنا اور پورے دیش میں چناؤ لڑنا بہت مشکل کام ہے۔ ان کی واپسی پر ویسا ہی شاندار تماشہ دیکھا گیا جیسا بینظیر کی واپسی پر دیکھا گیا تھا۔ اور تو اور مشرف کی واپسی کے ایک دن پہلے ہی عمران خاں کی ریلی میں بھیڑ ایک لاکھ تھی۔ وہ ان کے یہاں نہیں نظر آئی۔ محض 10-15 ہزار لوگ اکٹھا کرنے سے کیا مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ تعداد پر زور اس لئے کے پہلی جمہوری آصف زرداری سرکار کی میعاد پوری کر تاریخ بنانے والے پاکستان نے اکثریت پانے کی یہ ایک زبردست چنوتی ہے۔ پھر مشرف کے لئے کئی اور طرح کی مشکلیں بھی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان اور دوسری انتہا پسند تنظیمیں ان کی جان کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ پھر ان پر کئی مقدمے بھی چل رہے ہیں۔ بینظیر بھٹو اور اکبر بکتی کے قتل، لال مسجد میں فوجی کارروائی اور ججوں کی گرفتاری کے معاملے انہیں پریشان کرتے رہیں گے۔ ان کے جانے کے بعد حالات کافی بدل گئے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے مطالبہ کیا ہے پاک حکومت کو مشرف کے دیش لوٹنے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لئے انہیں جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہئے۔ ان پر نومبر2011ء میں بلوچ لیڈر اکبر بکتی کے قتل میں شامل ہونے کا الزام ہے، جن کو سال2006ء میں مشتبہ حالات میں مرا ہوا پایا گیا تھا۔ فروری 2011ء میں راولپنڈی کی عدالت نے مشرف کے خلاف پاکستان کی فیڈرل جانچ ایجنسی کی طرف سے دائر عارضی چارج شیٹ میں تسلیم کیا ہے جس میں ان پر سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل میں شامل ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس کے بعد عدالت نے مشرف کو بھگوڑا قراردیا۔ تنظیم نے کہا کہ مشرف کے فوج کے سربراہ رہتے ہوئے پاک فوج اور دیش کی خفیہ ایجنسیوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی۔ کئی سیاسی حریفوں کو جلا وطن یا جیل تک بھیجا گیا اور انہیں ٹارچر کیا گیا۔ بلوچ قوم پرستوں اور عمران خاں کی پارٹی تحریک انصاف اپنی طریقے سے چیلنج پیش کئے ہیں۔پاکستانی میڈیا میں میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مشرف کی واپسی کے لئے انہیں نواز شریف سے سودے بازی کرنی پڑی ہے اور یہ سودے بازی سعودی عرب کے شاہی خاندان نے کروائی ہے۔ پاکستان کے بڑے اخبار ’دی ٹریبیون ایکسپریس‘ کے مطابق پاکستان کی بڑی اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ نواز کو اس بات کے لئے تیار کیا گیا ہے کہ یہ مشرف کی واپسی پر روڑے نہ اٹکائے۔ مشرف کی سلامتی کو لیکر جنرل کیانی سے یقین دہانی لی گئی ہے۔ مشرف کے ایک قریبی کے مطابق نواز شریف اور جنرل اشفاق کیانی نے حال ہی میں سودی عرب کا دورہ کیا تھا ۔ بیشک زرداری حکومت کے خلاف آج پاکستان میں ناراضگی ہے لیکن پھر بھی مشرف مشکل سے ہی پاکستانی عوام کو قابل قبول ہوں، اس لئے کے سرکار کے عہد کے بارے میں ان کا نظریہ جمہوریت پر کم فوج پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے۔ وہ فوج کی کمان میں ہی جمہوری حکومت چلانا چاہتے ہیں۔ مشرف کی نظر میں جمہوری سرکاریں کرپٹ و تمام برائیوں سے بھری پڑی ہیں۔ اس سے آج کا پاکستان کا نوجوان طبقہ اور خوشحال طبقہ شاید ہی متفق ہو۔ دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ اب مشرف کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔ اب تک ڈیموکریٹک سیکولر ایجنڈے پر چلتے ہیں یا اقتدار کا فائدہ لینے کے لئے سیدھے سیدھے یا بیک ڈور سے پاکستانی فوج یا کٹر پنتھیوں سے ہاتھ ملاتے ہیں؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں