جمہوری تقاضوں اور روایتوں کو برقرار رکھتا فیصلہ

دیش کی تاریخ میں یہ تیسرا موقعہ ہے جب اتراکھنڈ میں سپریم کورٹ کی نگرانی میں کسی اسمبلی میں فلور ٹسٹ کروایا جائے گا۔ 10 مئی کو یعنی آج اتراکھنڈ اسمبلی میں عدالتی نگرانی میں ہونے والے اعتماد کے ووٹ کے دوران دو گھنٹے کے لئے زندہ ہونے والی ہریش راوت سرکار کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہوگا۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے 1998ء میں اترپردیش اور 2005 میں جھارکھنڈ میں ایسا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ جوڈیشیری کو تقویت پہنچانے کیلئے اصولی شکل میں معقول ہی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھارت سرکار بنام ایس آر بومئی معاملے میں یہ کہا تھا کہ اسمبلی میں اکثریت کا فیصلہ اسمبلی کے اندر ہی فلور ٹسٹ کے ذریعے ہونا چاہئے۔ اس کے بعد ایسے جتنے معاملے عدالت کے سامنے آئے، سبھی میں عدالت نے اسی اصول کو بنیاد بنا کرفیصلے سنائے۔ اتراکھنڈ کے تازہ معاملے میں بھی ہائی کورٹ نے بھی یہی کہا تھا کہ ہریش راوت سرکار کو اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کا موقعہ ملنا چاہئے۔ یہ اچھی بات ہے کہ مرکزی سرکار نے عدالت کے اس فیصلے کو منظور کرلیا مگر وہ فلور پر اکثریت کے ٹسٹ کے لئے تیار ہوجائے تو اس سے جمہوریت کا مقصد پورا ہوگا۔ شاید یہ بات سرکار کی سمجھ میں آگئی ہے کہ جمہوریت لوک لاج سے چلتی ہے اور ہریش راوت کی جو سرکار خود ہی پہاڑکی ڈھلان سے کھائی میں گرنے کو تیار ہے اسے دھکا دینے کا الزام اسے زیادہ وقت تک اپنے ماتھے پر نہیں لگانا چاہئے۔ حالانکہ اسٹنگ آپریشن کے بہانے خرید و فروخت کے الزام سے گزر رہے ہریش راوت کو سی بی آئی نے گھیر لیا ہے۔ پھر بھی بھاجپا کو مدد پہنچانے نکلے کانگریس کے9 باغی ممبران اسمبلی کو ووٹنگ کے لئے نا اہل قرار دے کر کے سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعلی راوت کو بڑا سیاسی گلیارا دے دیا ہے۔ اب سارے دیش کی نگاہیں 10 مئی کو دہرہ دون پر ٹکی ہیں۔ 10 مئی کو فلور ٹیسٹ کی ہدایت کے بعد اب اتراکھنڈ کی پوری سیاست 32 کے آنکڑے پر ٹکی ہے۔ یہ وہی جادوئی نمبرہے جس کو جٹاکر کانگریس یا بھاجپا اقتدار حاصل کرلے گی۔ 9 باغی ممبران کے بغیر ہونے والے فلور ٹیسٹ میں کل 62 ممبران سرکار کا مستقبل طے کریں گے۔ موجودہ نمبر طاقت کو اگر بنیاد مانا جائے تو موجودہوزیر اعلی ہریش راوت یعنی کانگریس کے 34 ممبران کے بوتے پر اکثریت ثابت کرنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے بشرطیکہ بھاجپا ۔ کانگریس اور اسے حمایت دے رہے 6 غیر کانگریسی ممبران کا گروپ پروگریسو ڈیموکریٹک فرنڈ (پی ڈی ایف) میں سیند ماری میں کامیاب نہ ہوجائے۔ منگلوار کو ہونے والے اس فلور ٹیسٹ کے لئے بھاجپا منتظمین نے دہرہ دون سے دہلی تک مورچہ سنبھال لیا ہے۔ بھاجپا لیڈرشپ کسی بھی طرح سے ہریش راوت سرکار کو اکثریت ثابت ہونے نہیں دینا چاہتی ہے۔اس کے لئے بھاجپا اپنے ممبران کو متحد رکھنے کے ساتھ پی ڈی ایف اور کانگریس میں راوت سے ناراض ممبران اسمبلی کو اکھٹا کرنے میں جٹ گئیں ہیں۔ راوت سرکار گرانے کی مہم میں ابھی تک بھاجپا کے داؤ بھلے ہی کامیاب ہیں رہیں ہوں ، لیکن اب وہ اس آخری موقعہ پر جھکنا نہیں چاہتی۔ دراصل یہ معاملہ بھاجپا لیڈر شپ کے لئے اب وقار کا سوال بن گیا ہے۔ سیاسی اخلاقیات اور جمہوری روایات کے لحاظ سے بھی یہ بہتر ہوتا کہ آئین کی دفعہ356 کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس دور میں دفعہ 356 کا استعمال بڑے پیمانے پر ریاستی حکومتوں کو گرانے کیلئے کیا گیا تھا۔ بمشکل تمام پچھلے برسوں میں اس پر لگام لگی تھی اب پھر اس سلسلے سے بچنا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے جمہوری عمل اور روایات کے حق میں ہے فیصلہ سنایا ہے، اس کے جذبے کا احترام ہونا چاہئے۔ ایسے ماحول میں اتراکھنڈ میں اسمبلی کے فلور پر طاقت آزمائش کا فیصلہ نہ صرف کانگریس اور بھاجپا کے درمیان بڑھتے ٹکراؤ کو کم کرے گا بلکہ عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان بنتی غلط فہمی کو بھی دور کرے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟