اتراکھنڈ فلور ٹیسٹ کے دوراندیش نتائج

اتراکھنڈ فلور ٹیسٹ کے بعد سے ہی کانگریس پارٹی کا خوش ہونا فطری ہے۔ ہریش راوت کا پھر مکھیہ منتری بننا طے ہے۔ سپریم کورٹ نے بدھوار کو فلور ٹیسٹ میں راوت کی جیت پر مہر لگادی۔ اس کے بعد کیندر سرکار نے کورٹ کے حکم پر راجیہ میں راشٹرپتی شاسن ہٹانے سفارش کردی۔ منگلوار کو فلور ٹیسٹ کے دوران 61 ووٹ پڑے۔ ان میں سے 33 ووٹ راوت کے حق میں پڑے۔ کانگریس نے ایوان میں اکثریت تو جگاڑبندی سے پا لی لیکن اب وہ اپنے بوتے پر واضح اکثریت میں نہیں رہے گی۔اس کا اثر یہ ہوگا کہ اسے حمایتی پارٹیوں اور ممبران اسمبلی کے آگے جھکنا پڑے گا۔ ہریش راوت کو جو نئے اتحادی ملے ہیں وہ دوسری پارٹی کے ہیں۔ ان پر کسی طرح کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔ ایسے میں انہیں شیشے میں اتارنا چیلنج بھرا ہوگا۔ اب تک اپنے کچھ اتحادی وزراء سے بھی ہریش راوت کا تال میل بگڑ گیا ہے۔ اب جب انہوں نے راوت کا کندھے سے کندھا ملا کر ساتھ دیا ہے تو ایسے میں ان کو مطمئن کرنے کے لئے بھی زیادہ قدم اٹھانے ضروری ہوں گے۔ اس کے لئے اپنے پاس رکھے ملائی دار مانے جانے والے محکموں کو اپنی کیبنٹ کے ساتھیوں سے بانٹنا پڑ سکتا ہے۔ کانگریس کواس فلور ٹیسٹ سے ایک طرح سے نئی سنجیونی ملی ہے۔ کانگریس کو لگ رہا ہے کہ اتراکھنڈ کے نتیجوں سے آنے والے دنوں میں غیر بی جے پی حکومتوں خاص کر کانگریس حکمراں ریاستوں کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ پارٹی مان رہی ہے کہ ا س پورے معاملے سے اسے پرسپشن کے سطح پر فائدہ ہوگا۔ جس طریقے سے بی جے پی کو سپریم کورٹ سے جھٹکا لگا ہے اس کے بعد مانا جارہا ہے کہ بی جے پی حکومت اب کانگریس کی دوسری ریاستوں پر ہاتھ ڈالنے سے تھوڑا سا ہچکچائے گی۔ دراصل اروناچل پردیش کے بعد اتراکھنڈ کی سرکار مرکزی حکومت کا دوسرا شکار بنی۔ مانا جارہا ہے کہ اتراکھنڈ کے بعد مرکزی سرکار کانگریس حکمراں دوسری ریاستوں مثلاً منی پور، ہماچل اور کرناٹک میں مبینہ آئینی بحران کھڑا کر کانگریس حکومتوں کو کمزور کرنے سے بچے گی۔ کانگریس کے ساتھ ساتھ جوڈیشیری سے بھی سرکار کو اس طرح سے نصیحتیں ملی ہیں، اس سے بھی بی جے پی کی امیج کو دھکا لگا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ جن ریاستوں میں اگلے سال اسمبلی چناؤ ہونے ہیں وہاں پر کانگریس کو کتنی ہمدردی ملتی ہے۔ اس پورے معاملے میں بہرحال ہریش راوت کی اسٹنگ آپریشنوں سے ساکھ ضرور خراب ہوئی ہے۔اس بات کے امکان سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سی بی آئی بار بار اب راوت کو پوچھ تاچھ کے بہانے پریشان کرسکتی ہے۔ کانگریس کے ایک طبقے کا یہ بھی خیال رہا ہے کہ ہریش راوت کو اب ہرانا بہتر ہوگااور نیا چہرہ لا کر اگلے اسمبلی چٹاؤ کی تیاریوں میں پارٹی و حکومت لگ جائے۔ فلور ٹیسٹ میں ہریش راوت سرکار کے حق میں بہوجن سماج پارٹی کا ووٹ کرنا آنے والے اترپردیش اسمبلی چناؤ میں بننے والے تجزیئے کی نشاندہی کرتا ہے۔ بیشک بسپا کا ایسا کرنا اس کی مجبوری رہی ہو ۔ پارٹی کے پاس صرف تین ہی متبادل تھے ایک اعتماد کے حق میں ووٹ کریں، دوسرا اعتماد کے خلاف ووٹ ڈالیں اور تیسرا ایوان میں غیر حاضر ہوں۔ آخر دو متبادل بیجے پی کے لئے مددگار ہوتے۔ ایوان سے غیر حاضر ہونا بھی بی جے پی کے لئے فائدہ مند ہوتا، ایسا کرنے سے یہ پیغام جانے کا خطرہ تھا کہ بی ایس پی نے بی جے پی مدد کے لئے ایسا کیا۔ بہن جی یہ قطعی نہیں چاہ رہی تھیں کہ ان پر کسی طرح بی جے پی کی مدد کرنے کا ٹھپا لگے۔ ان کے لئے اتراکھنڈ کی سیاست اتنی اہم نہیں جتنا یوپی ہے۔ بی جے پی سے اپنے آپ کو الگ دکھانے کے لئے بی ایس پی کو اعتماد کے حق میں ووٹ ڈالنا پڑا۔سب سے زیادہ پورے معاملے میں بی جے پی کو نقصان ہوا۔ پارٹی کی ساکھ بھی خراب ہوئی اور اقتدار کی امید چکنا چور ہوگئی۔ انہیں کانگریس کے اندرونی جھگڑے میں پڑنا نہیں چاہئے تھا۔ ہریش راوت سرکار تو اپنی اندرونی سیاست کی وجہ سے خود بخود گر جاتی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟