بھیک مانگنے سے تو اچھا ہے ڈانس بار میں رقص کرنا

سپریم کورٹ نے ڈانس بارکو لائسنس نہ دینے پر حال ہی میں حکومت مہاراشٹر کو کڑی پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ گزر بسر کے لئے سڑکوں پر بھیک مانگنے یا کوئی سماج کو نہ پسند کام کرنے سے بہتر ہے کہ عورتیں اسٹیج پر ڈانس کریں۔ حکومت مہاراشٹر نے ڈانس بار کی طرف سے کچھ شرطوں کو نہ ماننے کی دلیلیں دے کر انہیں لائسنس دینے سے منع کردیا تھا۔میں بات کرنا چاہتا ہوں سڑک پر بھیک مانگنے والے بھکاریوں کی۔ ہندوستان کی ہر سڑک، بازار ، ہر چوراہے پر بھیک مانگنے والے دکھائی پڑ جائیں گے ان میں کافی تعداد میں بچے شامل ہوتے ہیں۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ ان میں سے کافی پڑھے لکھے ہیں۔ دیش میں کل 3.72 لاکھ کے قریب بھکاری ہیں۔ ا ن میں سے21 فیصد ایسے ہیں جنہوں نے تقریباً12 ویں کلاس تک تعلیم حاصل کی ہے۔ دیش میں تقریباً تین ہزار بھکاری ایسے ہیں جن کے پاس پروفیشنل کورس کا ڈپلومہ ہے۔ کئی تو گریجویٹ اور ایم اے( پوسٹ گریجویٹ) کی تعلیم پوری کرچکے ہیں۔ سال2011ء میں ہوئی مردم شماری رپورٹ میں پیشوارانہ طور سے کوئی کام نہ کرنے والے اور ان کی تعلیمی استعداد سطح کے بارے میں اعدادو شمار اس رپورٹ کا حصہ ہیں۔ ان اعدادو شمار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بھکاری بننا ان کی پسند نہیں، بلکہ شاید مجبوری ہے۔پڑھ لکھنے کے بعد اپنی ڈگری و تعلیمی استعداد کی بنیاد پر نوکری (تشفی بخش ملازمت) نہ ملنے پر وہ بھکاری بننے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایک45 سالہ بھکاری نے 12 کلاس تک تعلیم حاصل کی تھی۔ فراٹے دار انگریزی میں اس نے بتایا کہ میں غریب ہوں ، لیکن میں ایک ایماندار انسان ہوں۔ میں بھیک مانگتا ہوں کیونکہ مجھے نوکری کے مقابلے میں زیادہ پیسے مل جاتے ہیں۔ میں روزانہ تقریباً 200 روپے تک کما لیتا ہوں۔ اس سے پہلے وہ ایک ہسپتال میں وارڈ بوائے تھا لیکن وہاں میری تنخواہ روزانہ محض 100 روپے ہی تھی۔ وہ اکیلا نہیں۔ 
احمد آباد کے کالی مندر پر اس کے ساتھ 30 بھکاریوں کا ایک ٹولہ ہے۔ بھکاریوں کے لئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری انجمن ’’مانو سادھنا‘‘کے پیٹرن جوشی کہتے ہیں کہ بھکاریوں کی بازآبادکاری کرنے کافی مشکل ہے۔ بھیک میں انہیں آسانی سے پیسہ مل جاتا ہے وہ لالچ انہیں بڑی آسانی سے بھیک کی طرف لے جاتا ہے۔ ماہر سماجیات گورنگ جونی بتاتے ہیں اگر گریجویٹ کی پڑھائی کرنے کے بعد لوگ بھیک مانگ رہے ہیں تو یہ اشارہ ہے کہ دیش میں بے روزگاری کا مسئلہ کتنا سنگین ہوگیا ہے۔ بھیک مانگنے کی عادت نہ چھٹنے کے پیچھے ایک بڑی وجہ نشے کی لت میں گرفتار ہونا بھی ہے۔ ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ ہم نے ایک نوجوان بھکاری کو کئی بار پکڑ کر کورٹ کے سامنے پیش کیا۔ وہ اچھے گھر سے تھا اسے مجسٹریٹ نے چھوڑدیا کیونکہ وہ اچھے گھر سے تھا۔وہ پھرگھر سے بھاگ کر بھیک مانگنے پہنچ گیا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!