سپریم کورٹ کا لائق خیر مقدم فیصلہ!

آدھی سے زیادہ سزا کاٹ چکے تہاڑ جیل میں بند زیر سماعت قیدیوں کو سپریم کورٹ نے رہا کرنے کا جو حکم دیا ہے وہ لائق خیر مقدم ہے۔ بڑی عدالت نے سبھی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ اور سیشن ججوں سے جیلوں میں عدالتیں لگا کر آدھی سے زیادہ سزا کاٹ چکے قیدیوں کو فوراً رہا کرنے کو کہا ہے۔ یہ عدالتیں لگاتار دو ماہ تک لگانی ہوں گی۔ اس فیصلے سے غریب قیدیوں کو بڑی راحت ملے گی جو ضمانت یا بانڈ کا انتظام نہیں کرپاتے۔ چیف جسٹس آر ۔ ایس لوڈھا کی سربراہی والی بنچ نے جمعہ کو جوڈیشیل مجسٹریٹ کو 1 اکتوبر سے عدالتی کارروائی شروع کرنے کو کہا ہے۔ اس کے بعد سبھی مجسٹریٹ اپنے ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل کو اس کی رپورٹ بھیجے گے۔ ہائی کورٹ رجسٹرار اس رپورٹ کو سپریم کورٹ میں داخل کریں گے۔ بنچ کا کہنا ہے اس معاملے کی سماعت اب8 دسمبر کو ہوگی کیونکہ مودی سرکار بھی اس پر غور کررہی تھی اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ جلد ہی سپریم کورٹ کے حکم پر عمل شروع ہوگا اور ہزاروں قیدیوں کو جیل کی سلاخوں سے نجات ملے گی۔ اس وقت جیلوں میں موجود ہر تیسرا قیدی جرم کی سزا کاٹ رہا ہے باقی تو جیل میں رہ کر فیصلے کا انتظار کررہے ہیں۔سست جوڈیشیل سسٹم اور کئی برس تک چلنے والے مقدموں کی وجہ سے نہ تو ان کی سزا پر فیصلہ ہوپارہا ہے اور نہ ہی ان کی رہائی پر۔ کئی تو اپنے جرم کیلئے مقرر سزا سے زیادہ دن کاٹ چکے ہیں۔ بہت سے قیدیوں کے پاس ضمانت یا مچلکہ بھرنے کے لئے پیسے تک نہیں ہیں اس لئے مجبوری میں جیل میں رہنا پڑرہا ہے۔ جیلوں میں اس وجہ سے قیدیوں کی مقرر تعداد سے زیادہ قیدی بھرے جارہے ہیں اندازہ ہے دیش کی جیلوں میں اس وقت قریب تین لاکھ 85 ہزار قیدیوں میں تقریباً2 لاکھ54 ہزار قیدی زیر سماعت ہیں۔ کچھ معاملوں میں تو زیر سماعت قیدی اپنے جرم کے لئے ملنے والی اصل سزا سے بھی زیادہ وقت جیل میں گزار چکے ہیں۔ آئی پی سی کی دفعہ436(A) زیر سماعت قیدی کو میادہ سے زیادہ میعاد تک حراست میں رکھنے کے بارے میں ہے اس میں یہ سہولت ہے کہ اگر ایسا قیدی جو زیر سماعت رہتے ہوئے اپنے جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا کی میعاد جیل میں گزار چکا ہو تو کورٹ اسے ذاتی مچلکہ پر یابغیر کسی ضمانتی کی رہا کرسکتی ہے۔مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد سنگھ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ دیش کی جیلوں میں کل جتنے قیدی ہیں ان میں 66 فیصد زیر سماعت ہیں یعنی ان کا جرم طے نہیں ہوسکا ہے۔ معمولی الزامات میں گرفتار قیدیوں کے برسوں تک جیل میں پڑے رہنے سے ظاہر ہے کہ اسے آئین میں دستیاب شہری حقوق کی سخت خلاف ورزی مانا جائے گا۔ اگر مقدمے کا فیصلہ آنے تک ایسے قیدی الزام سے بری ہوجاتے ہیں جیسا کہ اکثر ہوتا ہے ، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان کی زندگی کے بیش قیمتی برسوں کا جو نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی کیسے ہوگی اور اس کے لئے کون ذمہ دار ہوگا؟ بڑی تعداد میں غریب خاندانوں سے آئے زیر سماعت قیدی اسلئے بھی جیل میں پڑے رہتے ہیں کیونکہ ان کی ضمانت لینے اولا کوئی نہیں ہوتا۔ اتنی بھاری تعداد میں زیر سماعت قیدیوں کا ہونا یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے عدالتی سسٹم کی سست روی اور جرائم و انصاف کے عمل کی ناقابلیت کا ثبوت ہے اس لئے انہیں رہا کرنے کا فیصلہ لائق خیر مقدم ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟