دہلی این سی آرمیں سرکاری ہسپتالوں کی قابل رحم حالت!

نہ صرف بھارت میں بلکہ پوری دنیا میں ڈاکٹروں کو بھگوان کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ان سے قطعی امید نہیں کی جاتی کہ وہ اپنے پیشے میں لاپرواہی برتیں یا پھر غیر مناسب طریقے سے زیادہ پیسہ کمانے کیلئے اپنے پیشے کو داغدار کرنے والے ہتھکنڈے اپنائیں۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کے ڈاکٹر سارے غیر مناسب کام کررہے ہیں۔ غریبوں کیلئے راجدھانی اور این سی آر کے 46 ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت ہے لیکن اسے شاید ہی کوئی نافذ کرتا ہو۔آئے دن خبر آتی رہتی ہے کہ ان تمام ہسپتالوں میں جتنے بستر خط افلاس کی زندگی گزارنے والے کارڈ یافتگان کے لئے محفوظ ہیں اتنا داخلہ نہیں دیا جاتا۔ غریب مریض لاکھوں روپے کا بل دینے کو مجبور ہیں یہاں تک کہ مریض کے ذریعے پیش کئے جانے والے دستاویز میں بھی کوئی نہ کوئی خامی نکال کر معاملہ لٹکا دیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں غریب کے علاج کو لیکر سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق اگر کسی شخص کی ماہانہ آمدنی 8086 روپے سے کم ہے تو اسے غریب مانا جائے گا۔ دہلی این سی آر کے46 ہسپتالوں میں تقریباً700 بیڈ کو ریزرو رکھنا ہوگا لیکن ایسا ہونہیں رہا۔ ہسپتالوں کا یہ حال ہے ڈاکٹر کبھی کبھی اتنی لاپرواہی برتتے ہیں جس کا کوئی حساب نہیں اب عدالتیں بھی سخت ہوتی جارہی ہیں۔ لاپرواہی کے معاملوں میں عدالتوں نے معاوضہ دلانا شروع کردیا ہے تاکہ ڈاکٹر جوابدہ بنیں اور مریض سے لاپرواہی نہ برتیں۔ حال ہی میں ایک لڑکی میڈیکل لاپروائی کا شکار بننے کے12 سال بعد سپریم کورٹ نے 20 لاکھ روپے معاوضہ دینے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اس نے جو پریشانیاں جھلیں ہیں اور مستقبل میں جو پریشانیاں آئیں گی اسے دیکھتے ہوئے یہ معاوضہ مناسب ہے اور دلیل آمیزحکم ہے۔ہسپتال کی لاپرواہی کے سبب دوسالہ بچی کا گوشت گل گیا تھا جس سے اس کا داہنہ ہاتھ کاٹنا پڑا حالانکہ لڑکی کو اگست2000ء میں سردی کھانسی اور بخار کے علاج کیلئے ہسپتال میں داخلکرایا گیا تھا۔ اس کی نسوں میں رقیق دوا ڈالی گئی لیکن نس کی بجائے غلطی سے یہ نازک جگہ پہنچ گئی جس سے داہنے بازو میں خون کی سپلائی بند ہو گئی اور اس کا گوشت سڑ گیا۔ سرکار ہسپتالوں کا یہ حال ہے کہ چھ ماہ سے زیادہ وقت سے دہلی سرکار کے واحد ایک سپر اسپیشلٹی ہسپتال میں نیورو سرجری کے شعبے میں بچوں کے آپریشن ٹالنے پڑ رہے ہیں۔ محض ایک ڈرل مشین نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو آپریشن کے لئے دوسرے ہسپتال بھیجنا پڑ رہا ہے۔ معاملہ دہلی سرکار کے ماتحت جی بی پنتھ ہسپتال کے نیورو سرجری شعبے کا ہے۔ یہاں ڈرل مشین خراب ہونے اور نئی مشین نہ آنے کی وجہ سے بچوں کی نیورو سرجری ٹالنی پڑ رہی ہے۔ ڈاکٹروں کی مانیں تو بغیر ڈرل مشین کے بچوں کے دماغ کا آپریشن کرنا خطرناک ہے لہٰذا ہسپتال کے ڈاکٹر خطرہ مول لینا نہیں چاہتے اور مریضوں کو دوسرے ہسپتال میں بھیج دیتے ہیں۔یہ تسلی کی بات ہے کہ ہمارے وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن خود ایک ڈاکٹر ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب غریبوں کے علاج میں آئی ان کمیوں کو دور کرنے کیلئے سرکاری ہسپتالوں میں ضروری سازو سامان پرتوجہ دیں گے اور کمی کو پورا کریں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟