بھارت کی 77فیصدی لڑکیاں جنسی تشدد کا شکار!

ہمارے دیش میں یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ خواتین ، جوان لڑکیاں اور بچیوں کے خلاف جنسی استحصال کے واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ صبح اخبار دیکھ کر دل بیٹھ جاتا ہے۔ جب خبر پڑھتے ہیں فلاں جگہ ایک چھوٹی بچی یالڑکی یا خاتون سے آبروریزی یہ بدفعلی ہوئی ہے ۔ اس سلسلے میں یونائیٹڈ نیشنز چلڈرن فنڈ (یونیسیف) کی ایک رپورٹ جاری ہوئی ہے۔اس کا عنوان ہے (Hidden in plain sight) اس میں سماج کے سیاہ پہلو سے روبرو کرایا گیا ہے۔ کچھ ایسی ڈراؤنی سچائی سامنے آئی ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ بتاتی ہے کہ سماج میں لڑکیوں، بچیوں اور شادی شدہ عورتوں کو یا تو جنسی تشدد یا حوس کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ 15 سے19 سال کی عمر میں تقریباً آدھی لڑکیاں اپنے والدین سے جنسی اذیتیں جھیلتی ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ بتاتی ہے سماج میں بچوں کے تئیں مار پیٹ اس قدر چلن بڑھ گیا ہے کہ کئی بار تو اسے جان بوجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے یا عام واقعہ مان کر چھوڑدیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 15 سے19 سال کی عمر کی77 فیصد لڑکیاں اپنے شوہر یا شریک حیات کے ذریعے کم سے کم ایک بار آبروریزی کا شکار ہوتی ہیں۔ ساؤتھ ایشیائی ملکوں میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی اپنے دوست سے اذیت کا شکار بنتی ہے چاہے وہ شادی شدہ ہو یا نہیں۔ اس معاملے میں بھارت اور بنگلہ دیش دونوں ہی بدنام ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ 15 سے19 سال کی عمر کی 34 فیصدی شادی شدہ لڑکیاں شوہروں کی جنسی اذیت یا جذباتی ٹھیس پہنچانے کا شکار ہوتی ہیں۔ اس عمر میں 21 فیصد لڑکیاں جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ سنگل کہیں یا غیر شادی شدہ لڑکیوں کو کسی کنبے کے فرد یا کسی دوست یا کسی واقف کار یا یہاں تک کہ ٹیچروں کے جنسی استحصال کا شکار ہونا پڑتا ہے۔آذربائیجان، کمبوڈیا، ہیتی، بھارت ،لائبیریا، سیمور وغیرہ ملکوں میں زیادہ تر معاملوں میں متاثرہ کی ماں یا سوتیلی ماں اس مار پیٹ کیلئے قصور وار پائی جاتی ہیں۔ 2012ء میں لڑکوں کی گھروں میں ہونے والے قتل کے معاملے میں بھارت تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ بھارت میں بھلے ہی 19 سال تک کے تقریباً 9400 بچے اور لڑکیاں مارے گئے تھے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ 15سے19 سال کے درمیان 41 فیصدی لڑکیاں شوہر یا دوست کے ذریعے اپنے ساتھ کی گئی جنسی بدفعلی کو بھی ذمہ دار مانتی ہیں۔ یونیسیف کی اس رپورٹ میں بچاؤ کے اقدامات یا حکمت عملیاں بھی تجویز کی گئی ہیں ان میں والدین کی حمایت کرتے ہوئے بچوں کو زندگی کے آداب سکھانا، ان کے کٹر مزاج کو بدلنا، سوسائٹی کی عدلیہ یا کرمنل وسوشل سسٹم و سروس میں تبدیلی لانے اور تشدد سے زیادہ سے زیادہ ثبوت اکٹھا کر ان کا استعمال کے تئیں بیداری لانا اس سے چکائی جانے وائی انسانی ،سماجی و اقتصادی قیمت کو لوگ سمجھ سکیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟