سی بی آئی چیف رنجیت سنہا نے اپنی ساکھ اور ایجنسی کے وقار پر بھی داغ لگایا!

دیش کی سب سے بڑی وقاری جانچ ایجنسی سی بی آئی اس وقت بحران کے ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے کہ اس کے وجود اور اس کی غیر جانبداری پر ہی سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے ہیں۔ جب بھی کوئی بڑاواقعہ یا گھوٹالہ کا معاملہ سامنے آتا ہے تو اس کی جانچ سی بی آئی سے کروانے کی مانگ اٹھنے لگتی ہے۔ لیکن جب اس ایجنسی کے سربراہ اعلی پر ہی سنگین الزام لگنے لگیں تو ظاہر سی بات ہے کہ ایجنسی کی غیر جانبداری اور اس کی پاک دامنی پر ہی سوال کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سی بی آئی کے ڈائریکٹر رنجیت سنہا کے طریقہ کار پر اٹھے سوالات سے رنجیت سنہا کی شخصی ساکھ تو داؤ پر لگی ہی ہے بلکہ ساتھ ساتھ انہوں نے ایجنسی کو بھی بھاری دھکا پہنچایا ہے۔ ٹو جی اسپیکٹرم جانچ کے دوران ملزمان سے ملنے کے الزامات پر جواب طلب کر چکی سپریم کورٹ نے اب کول گیٹ گھوٹالے میں بھی ان سے سوالات پوچھے ہیں۔ رنجیت سنہا پر کوئلہ گھوٹالے میں بھی جانچ کے دوران ملزمان سے ملنے کے ثبوت ملے ہیں۔ دونوں ہی معاملوں میں سپریم کورٹ نے ان کے سرکاری مکان کے استقبالیہ دفتر میں رکھے رجسٹر کو اہمیت دی ہے اور پہلی ہی نظر میں الزامات کو سنگین مانا ہے۔ سی بی آئی ڈائریکٹر رنجیت سنہا کے سامنے مشکل چیلنج کھڑا ہوگیا ہے۔ وہ ایسے دو گھوٹالوں سے وابستہ معاملوں میں پھنس گئے ہیں جن کی وجہ سے سابقہ یوپی اے سرکار کی ساکھ داغدار ہوگئی تھی۔عوامی رائے اور عدلیہ کی نگاہوں میں یہ دونوں معاملے ٹو جی گھوٹالے اور کول گیٹ بیحد حساس ہیں لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی سی بی آئی چیف ٹو جی اسپیکٹرم اور کوئلہ گھوٹالوں کے ملزمان سے کھلے عام ملتے رہے ہیں۔ اسے انجانے میں ہوئی بھول ماننے کو شاید کوئی تیار ہوگا۔ اس معاملے کا خلاصہ ہونے پر انہوں نے ایک طرف اس کتاب کے جواز پر سوال اٹھائے جس میں ان کے مکان پر آنے جانے والے لوگوں کی تفاصیل درج تھیں ساتھ ہی یہ دلیل بھی دی کہ ایسی ملاقاتوں میں کوئی معاملہ غیر ضروری نہیں ہے۔ صاف ہے ان متضاد دلائل کو سپریم کورٹ نے منظور نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے رنجیت سنہا کے گھر پر ہوئی ملاقاتوں کو بھی سنگین مانا ہے۔ عدالت نے صاف کردیا کہ ان الزامات پر زبانی جواب دینے سے کام نہیں چلے گا۔ 15 ستمبر تک اگلی سماعت پر رنجیت سنہا سے اس بارے میں صاف طور پر تحریری جواب مانگا گیا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ اگر الزام صحیح پائے گئے تو ان دونوں معاملوں میں فیصلے منسوخ ہو سکتے ہیں۔ رنجیت سنہا کے لئے آنے والے کچھ دن فیصلہ کن ہوسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے موقف کی وجہ سے اس بڑی اور سنجیدہ جانچ ایجنسی کی جو خفت ہوئی ہے اس سے سرکار بھی شش و پنج میں مبتلا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سرکار نے ڈائریکٹر سے کچھ جانکاری مانگنے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے اشارے بھی دئے ہیں جن کا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ سی بی آئی کے ڈائریکٹر کیلئے آنے والے دن اچھے نہیں ہیں۔ ویسے بھی سی بی آئی ڈائریکٹر کا عہدہ دو سال کے لئے ہوتا ہے اس کے پہلے اس کو ہٹایا نہیں جاسکتا۔ ایسی صورت میں سپریم کورٹ کو فیصلہ لینا ہوگا۔ ویسے بھی رنجیت سنہا اس سال کے آخر تک اپنے دو سال پورے کر چکیں گے۔ غور طلب ہے غیر سرکاری انجمن سینٹر فار پبلک ریسٹوریٹ لیٹیگیشن کے وکیل پرشانت بھوشن نے الزام لگایا کہ ٹو جی اسپیکٹرم اور دوسرے معاملوں کے کئی ملزم ملزمہ کمپنیوں کے افسران یقینی طور سے نہ صرف سنہا کے گھر پر ملا کرتے تھے بلکہ سنہا کچھ ملزمان کو بچانے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟