821 سالوں کے بعد تاریخ دوہرانے کی راہ پر نالندہ وشو ودیالیہ!

پورے دنیا میں تعلیم اور علم کے میدان میں پہچان بنانے والے نالندہ وشو ودیالیہ کا تصورحقیقت بن گیا ہے۔سوموار کو آٹھ صدیوں کے بعد نالندہ نے پھر تعلیم کی مند مند بیار بہنی شروع ہوئی ہے۔ 821 سال بعد اس وشوودیالیہ کی بنیادی روح تاریخی مہاوہار کی طرز پر ہے۔ پانچویں صدی میں گپت شاسک کمار گپت پرتھم(450-470) کے ذریعے قائم اس وشوودیالیہ کو تین بار غیر ملکی حملہ آوروں نے ڈھایا۔ اب 21 ویں صدی میں ایک بار پھر نالندہ اپنے وقار کو قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔لال پتھروں سے بنے تاریخی نالندہ وشوودیالیہ کے کھنڈروں سے 10 کلو میٹر دور راجگیر میں 446 ایکڑ میں اسے دوبارہ شروع کیا جارہا ہے جو2021 ء تک پورا ہوگا۔ایشیا کے ساتھ پوری دنیا کے طالبعلموں کے لئے تعلیم کے سب سے بڑے مرکز رہے نالندہ میں دو غیر ملکی اور آٹھ ہندوستانی طالبعلموں کے ساتھ تدریسی کام شروع ہوگا۔ اس وقت کے مہاوہار میں بدھ دھرم کے مہایان اور ہری یان فرقوں کے مذہبی گرنتھوں کے علاوہ ہیتوودھا(انصاف) شبد ودھا (ویاکرن) چکتسا ودھا اور ویدوں کی پڑھائی ہوتی تھی۔ نئے وشوودیالیہ میں 7 موضوعات پر فی الحال پڑھائی ہوگی۔ اس میں تاریخ وماحولیاتی سائنس کے علاوہ بدھشٹ اسٹڈیز، فلاسفی اور کمپریٹیو ریلیجنس، لنگوسٹکس اینڈ لٹریچر، انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ پیس اسٹڈیز اور انفارمیشن سائنس اینڈ ٹکنالوجی موضوعات پر پڑھائی ہونی ہے۔ تاریخی نالندہ وشوودیالیہ کی طرز پر بین الاقوامی وشو ودیالیہ قائم کرنے کا خواب چاہے پورا ہوگیا ہو لیکن اس کا تصور کرنے والے سابق راشٹرپتی اے۔ پی۔ جے عبدالکلام کو اس کا سہرا جاتا ہے۔28 مارچ 2006ء کو کلام نے اپنے بہار دورہ کے سلسلے میں سابق وشوودیالیہ کو دوبارہ زندہ کرنے کی صلاح دی تھی۔ یہ خیال انہوں نے بہار ودھان منڈل کے مشترکہ سیشن کو خطاب کرتے ہوئے رکھا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعلی نتیش کمار نے اس تصور کو سچ کرنے کیلئے کافی کوششیں کیں اور نالندہ کی زمین ایک بار پھراپنی سنہری تاریخ کو دوہرا رہی ہے۔ حکومت ہند نے2007ء میں نوبل انعام جیتنے والے امرتیہ سین کی قیادت میں نالندہ مینٹر گروپ قائم کیا۔ اس گروپ میں چین، سنگاپور، جاپان اورتھائی لینڈ کے نمائندوں کو شامل کیا گیا جس سے اس وشوودیالیہ کی بین الاقوامی سانجھے داری ہوسکے۔اس مینٹر گروپ کو ہی وشوودیالیہ کی گورننگ باڈی کے روپ میں بدل دیا گیا۔چانسلر ڈاکٹر گویا سبروال نے کہا کہ کئی جھنجھٹوں کو جھیلتے ہوئے ہم نے اپنے نشانے کی پہلی کڑی پار کرلی ہے۔کئی رکاوٹیں آئیں الزامات پر الزامات لگائے گئے لیکن ایک کے بعد ایک سبھی الزامات بے بنیاد ثابت ہوئے۔ ہم اپنی منزل کی جانب بڑھتے گئے نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ڈین ڈاکٹر شرما نے کہا کہ جیت کا دوسرا نام نالندہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ترک حملہ آوربختیار خلجی نے 1193ء میں نالندہ وشوودیالیہ کو ڈھا کر ہزاروں بودھ بھکشوؤں کو ماردیا تھا۔ حملہ آوروں کے ذریعے آگ لگائے جانے کے بعد نالندہ کی وشال لائبریری تین ماہ تک جلتی رہی تھی۔ اس تاریخی حصولیابی کیلئے سبھی کو بدھائی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟