نکسلی حملے کا رمن سنگھ کے مستقبل پر کیا اثرپڑ سکتا ہے؟

چھتیس گڑھ میں سکما ضلع میں کانگریس لیڈروں پر ہوئے بربریت آمیز نکسلی حملے کو لیکر سیاست شروعہوگئی ہے۔ کانگریس اور بھاجپا نیتا اب کھل کر ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں لگے ہیں۔ ویسے چھتیس گڑھ حکومت نے کانگریس کی پریورتن ریلی میں سکیورٹی کی خامی کی اپنی غلطی مان لی ہے۔ حالات کا جائزہ لینے رائے پور پہنچے مرکز کے اعلی افسروں کے سامنے ریاست کے حکام نے مانا کہ کانگریس کی پریورتن ریلی کے دوران خطرناک علاقے میں سکیورٹی کے لئے پلان کئے جانے والے انتہائی اہم قواعد ایس او پی پر عمل نہیں کیا گیا۔ ریاستی حکومت نے یہ بھی مانا کے خفیہ اطلاع نہ ہونے کے باوجود سکیورٹی سسٹم میں کئی کمیاں تھیں۔ چھتیس گڑھ سے لوٹے وزارت داخلہ کے افسروں نے بتایا ریاستی حکومت نے اپنی غلطی مان کر دو بڑے پولیس افسروں کا تبادلہ اور ایک ایس پی کو معطل کردیا ہے۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ نکسلی حملے میں مارے گئے کانگریس کے سینئر لیڈر مہندر کرما کو 16 ہتھیار بند گارڈوں کی زیڈ پلس سکیورٹی ملی ہوئی تھی لیکن جب نکسلی حملہ ہوا تب ان کے ساتھ محض کچھ ہی سکیورٹی جوان چل رہے تھے۔
ذرائع کے مطابق کرما کے علاوہ نند کمار پٹیل کے پاس بھی درکار سکیورٹی نہیں تھی۔ ابتدائی جانچ میں سامنے آرہا ہے کہ کانگریس کی ریلی کے لئے سکما میں تو کافی سکیورٹی کے انتظامات تھے لیکن جب ریلی جگدلپور ضلع میں پہنچی تو سکیورٹی پرکوئی غور نہیں کیا گیا۔ بستر کے ایس پی مینک شریواستو نے کانگریس یاترا کو سکیورٹی مہیا کرانے کی کوئی ہدایت نہیں دی تھی۔ ایسا بتایا جارہا ہے کہ سکیورٹی کی اس بھاری غلطی کے چلتے نکسلی دربھ وادی میں حملے کو انجام دینے میں کامیاب رہے۔ لاپرواہی کے لئے مینک شریواستو کو معطل کردیا گیا ہے۔ کانگریس قیادت سے ملے صاف اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ نیتاؤں نے جارحانہ تیور اپنا لئے ہیں۔ کانگریس نے کہا کہ بھاجپا اور ماؤوادیوں کے درمیان سانٹھ گانٹھ ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری جناردن دویدی نے کہا کہ رمن سرکار کو ایک پل اقتدار میں رہنے کا حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا یاترا کے روٹ کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی اور واقعہ سے لگتا ہے کہ کہیں نیت میں کھوٹ ہے اس لئے ضروری ہے کہ سارے معمے کو سامنے لایا جانا چاہئے۔ پارٹی ترجمان بھکت چرن داس نے کہا کہ نام نہاد ماؤوادی اور بھاجپا ایک دوسرے سے مل کر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے نیتاؤں پر حملے کے بعد خوف پھیلا کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کے اس واقعے سے فائدہ کس کو ملنا تھا؟ تقریباً اسی لائن پر کانگریس جنرل سکریٹری دگوجے سنگھ نے کہا کہ یہ حملہ گہری سیاسی سازش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے بلاگ میں شہید کانگریس لیڈروں کو شردھانجلی دیتے ہوئے کئی سوال اٹھائے ہیں۔ 
انہوں نے پوچھا کہ یہ نکسلی حملہ نظریاتی لڑائی کا حصہ تھا یا پھر کانگریس کی سینئر لیڈر شپ کی منصوبہ بند قتل ؟ انہوں نے پٹیل کے قتل پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں پولیس کارروائی میں8 بے قصور آدی واسیوں کے قتل کو ریاستی سرکار کے خلاف بڑا اشو بنایا گیا تھا۔ وہ کبھی بھی مہندر کرما کی طرح نکسلیوں کے نشانے پر نہیں تھے۔ پٹیل کے ذریعے شروع کردہ پریورتن یاترا کو وسیع حمایت مل رہی تھی۔ ان کا جنوبی بستر کے نکسل متاثرہ علاقے کا دورہ طے کیا گیا۔ اس سلسلے میں سکما میں کامیاب ریلی کے بعد جب نیتاؤں کا قافلہ آگے بڑھا تو دربھ میں نکسلی حملہ ہوگیا۔ 
موقعہ واردات سے پولیس تھانے کی دوری محض پانچ کلو میٹر تھی۔ جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے مدھیہ پردیش صدر نریندر سنگھ تومر نے گلیر میں منعقدہ ریاستی ایگزیکٹو کے افتتاحی سیشن میں الزام لگایا ہے کہ اس حملے کے پیچھے سابق وزیر اعلی اجیت جوگی کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کا جس طرح جوگی اس حملے کو لیکر آنسو بہا رہے تھے اس سے اس کانڈ میں جوگی کی سازش نظر آرہی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس حملے کا آنے وال اسمبلی چناؤ پر کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں؟ بھاجپا کے اعلی نیتا دبی زبان میں قبول کررہے ہیں کہ اسمبلی چناؤ کے ٹھیک پہلے ہوئی اس واردات سے کانگریس کے تئیں پیدا ہمدردی نے صرف چھتیس گڑھ بلکہ پڑوسی ریاست مدھیہ پردیش کے بھی چناؤ نتائج متاثر کرسکتی ہے۔ پارٹی کو نکسلی حملے میں قبائلی لیڈر مہندرکرما کا بے رحمی سے قتل کا اثر چھتیس گڑھ سرحد سے لگے مدھیہ پردیش کے آدی واسی قبائلی علاقوں میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔
پارٹی مان رہی ہے ایک واردات جس کو 9 سال گذر گئے ہیں اس میں بے داغ ساکھ رکھنے والے وزیر اعلی رمن سنگھ کی ساکھ کو داغدار بنا دیا ہے۔ ادھر کانگریس کے لوگوں نے ہمدردی لہر چناؤ تک برقرار رکھنے کے لئے فول پروف حکمت عملی تیار کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ بھاجپا کو پلان پراس بار بھی ریاست میں عوامی تقسیم نظام کے ذریعے سستا چاول دستیاب کراکر رمن کی ساکھ کو بھنانے میں کوشش کی تھی۔
10 سال کے عہد میں وزیر اعلی کے خلاف کوئی بڑا اشو نہ ملنے کے سبب جہاں اپوزیشن پریشان تھی وہیں بھاجپا ریاست میں ہیٹ ٹرک لگانے کے تئیں مطمئن تھی مگر اس حملے نے پارٹی کے تجزیئے بگاڑ دئے ہیں۔ اب پارٹی دفاعی انداز میں کھڑی ہوگئی ہے۔ رمن سنگھ کو اب دن رات ایک کرکے یہ فیصلہ کن طور سے ثابت کرنا چاہئے کہ حملے کے پیچھے کون تھا اور اس کا کیا مقصد تھا؟ سکیورٹی انتظامات میں کمی تو خود انہوں نے مان لی ہے اب تو بس یہ ہی راستہ بچا ہے کہ وہ پوری سازش کا پردہ فاش کریں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟