یوپی اے2- کے چار سال کا ریکارڈ:ڈوبتی ساکھ وقت کم

یوپی اے حکومت نے بدھ کو حکومت کے کارناموں کی تصویر پیش کرتے ہوئے یوپی اے2- کی رپورٹ کارڈ بڑی دھوم دھام سے پیش کی ہے۔ یوپی اے۔2 کے چوتھے برس میں وزیر اعظم اور کانگریس صدر سونیا گاندھی نے رپورٹ کارڈ میں سرکار کے تمام کاناموں، منریگا، غذائی سبسڈی اور سوشل سیکٹر کے منصوبوں کے بارے میں بتایا ہے۔ اپنی اپنی رائے ہوسکتی ہے۔ چوتھی سالگرہ منا رہی یوپی اے۔2 سرکار کے ہماری نظروں میں جتنے کارنامے ہیں اس سے کہیں زیادہ اس نے اپنے کھاتے میں بدنامی جڑی ہے۔ چناؤ قریب آرہا ہے اور سرکار مقبولیت کے بجائے مسلسل عوامی ناراضگی میں گھرتی جارہی ہے۔ 2009ء کے عام چناؤ میں خود کی 206 ممبران پارلیمنٹ کی جیت کے بلبوتے کانگریس نے جوڑ توڑ کر یوپی اے سرکار کی عمارت بنا لی۔ چناوی جنگ میں کانگریس کو ملتی کامیابی کو دیکھ کر ہی سیاسی پنڈتوں نے 2014ء چناوی نتیجوں کے بارے میں پہلے ہی سے اندازہ لگالیاہے۔ یوپی اے سرکار کی ان پنڈتوں نے تیسری پاری طے کردی ہے مگر پچھلے چار سالوں میں کرپشن، گھوٹالے، مہنگائی اور سست خارجہ پالیسی، بگڑتے قانون و انتظام و پالیسیوں میں غیر لچیلا پن اور عوامی ناراضگی اور اقتصادی اصلاحات کی فضیحت یوپی اے سرکار کی سب سے بڑی پہچان بن گئی ہے۔ نتیجتاً یوپی اے سرکار کی اس کی دو سب سے بڑی پارٹیاں ڈی ایم کے اور ترنمول کانگریس نے پیچھاچھڑا لیا ہے۔ یوپی اے سرکار کو چار بر س ہوگئے ہیں لیکن اس سرکار کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسکے بارے میں عام رائے یہ بن چکی ہے یہ ایک کمزور سرکار ہے۔ عام جنتا تو یہ بھی ماننے لگی ہے کہ سرکار پالیسیوں کو پورا نہیں کرسکتی۔2009ء کی شاندار جیت کے ٹھیک بعد یوپی اے سرکار کی فضیحت کا سلسلہ الشرم الشیخ سے شروع ہوگیا۔ پاکستان کے ساتھ مشترکہ بیان میں بلوچستان پر پہلی بار اس کو بڑھاوا دینے سے ہوا۔ یوپی اے کا بحران 2010ء میں 1.76 کروڑ روپے کے ٹوجی اسپیکٹرم کے بڑے گھوٹالے کے پردہ فاش سے پروان چڑھا۔ اس کے بعد مہنگائی کا گراف تیزی سے بڑھا۔ عام آدمی کے لئے روٹی ، کپڑا، مکان کا انتظام کرنا مشکل ہوگیا۔ یہ ہی نہیں خود اقتصادی ماہر منموہن سنگھ اور ان کی خصوصی اقتصادی ٹیم مونٹیک سنگھ اہلوالیہ، سی رنگاراجن نے دیش کی معیشت کو چوپٹ کردیا۔ ترقی شرح ساڑھے پانچ فیصدی تک گر گئی۔ لاکھوں نوجوانوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پھر آیا گھوٹالوں کا طوفان ۔ کرپشن ختم کرنے کے تمام دعوے کئے گئے مگر کوئلہ گھوٹالہ ،ڈیفنس سودوں میں دلالی، ہیلی کاپٹر سودا اور کامن ویلتھ گھوٹالہ، آدرش ہاؤسنگ سوسائٹی و ریلوے رشوت کانڈ جیسے ایک کے بعد ایک گھوٹالے سامنے آئے۔ اقتصادی اصلاحات پر کبھی ہاں کبھی نہ کرنے کے بعد حکومت نے خوردہ بازار میں غیر ملکی سرمایہ داری لانے کے لئے ہمت دکھائی تو ممتا بنرجی نے ان سے ناطہ توڑ لیا۔ کچھ مہینے بعد سری لنکا میں تمل لوگوں کی سکیورٹی کے بہانے ڈی ایم کے نے بھی سرکار سے ناطہ توڑ لیا۔ پارلیمنٹ میں اقلیت کا خطرہ جھیل رہی سرکار سپا اور بسپا کی بیساکھی پر دن کاٹ رہی ہے۔ اس لنگڑی سرکار کے الزاموں کی لمبی فہرست ہے۔ سی بی آئی کے ساڑھے چار سال اقتدار میں رہنا اور سرکار کا محض ایک کارنامہ مانا جاسکتا ہے۔ حکومت کی پالیسیوں میں آخری لفظ سونیا گاندھی کا ہوتا ہے وزیر اعظم کا نہیں۔ منموہن سنگھ جیسے خوش مزاج اور کم گو شخص آج تک وزیر اعظم نہیں بنا۔ جو فیصلے نہ لینے ،معزوری اور خاموشی کی علامت بن چکے ہیں۔ وزیر اعظم، سی بی سی ، الیکشن کمیشن ، انسانی حقوق کمیشن کے لئے یوپی اے کے ذریعے تقرریاں متنازعہ بنیں اور شبہات کے دائرے میں ہیں۔ پڑوسیوں کے ساتھ اتنے کشیدہ رشتے کبھی نہیں رہے۔ مالدیپ جیسا چھوٹا دیش بھی آج بھارت کو آنکھیں دکھانے سے باز نہیںآرہا ہے۔ دہلی گینگ ریپ کے بعد سرکار پر خواتین اور بچوں پر ذیادتیوں کے خلاف سخت قانون بنایا ۔ مگر پانچ مہینے ختم ہونے پر بھی دامنی مقدمہ ابھی عدالتوں میں ہی لٹکا ہوا ہے۔ سزا کب ہوگی ،کہا نہیں جاسکتا۔ دہلی میں آبروریزی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ پاکستان کے سفارتی مورچے پاک جیلوں میں ہندوستانی قیدیوں کی موت و سرحد پر ہندوستانی جوان کا سر کاٹ کر لے جانا۔ اس سرکار کی کمزوری کی تازہ مثال ہے ۔کانگریس کا ایک طبقہ آج کھل کر کہہ رہا ہے کہ منموہن سنگھ پارٹی اور سرکار کے لئے ایک بوجھ بن چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی ٹو جی اسپیکٹرم سے لیکر کوئلہ گھوٹالے تک وزیر اعظم کے دفتر کے رول پر منفی رائے زنی کی ہے۔ کانگریس کے اندر سے کئی بار ایسی آوازیں آئی ہیں کے ڈاکٹرمنموہن سنگھ پردھان منتری کے عہدے کے لئے نا اہل ثابت ہورہے ہیں اور اب انہیں اپنے عہدے سے ہٹ جانا چاہئے۔ اس کی وجہ سے منموہن سنگھ کو بار بار کانگریس سے آکسیجن لینی پڑتی ہے۔ کانگریس کی اندرونی کھینچ تان اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اقتدار کے دو مرکزوں کو غیر مناسب بتانے سے متعلق کانگریس کے ایک ایک جنرل سکریٹری کا بیان اسی کا حصہ ہے۔ لوک سبھا چناؤ سے پہلے اس آخری سال میں حکمراں پارٹی کانگریس کے سامنے سب سے بڑی چنوتیاں آج پچھلے 9 برسوں میں تار تار ہوئی ساکھ کو بہتر بنانا ہے۔ کرپشن ،مہنگائی اور بدانتظامیہ کو لیکر یوپی اے کی دوسری میعاد میں سرکار اور پارٹی کی ساکھ کو جو دھبہ لگا ہے اس نے نہ صرف وزیر اعظم منموہن سنگھ کی ساکھ پر بٹا لگا دیا ہے بلکہ کانگریس پارٹی کے امکانات کو بھی داغدار کرنے کا کام کیا ہے۔ پارٹی کے ایک سکریٹری جنرل کے مطابق 9 سال کے کارناموں پر کچھ بڑے گھوٹالوں نے پانی پھیرنے کا کام کیا ہے۔ ان کے مطابق سب سے بڑی چنوتی دیش کی جنتا کے دل میں گھر کرچکی ہے کہ اس ساکھ کو دھونے کی ہے جس سے یہ پیغام جارہا ہے کہ کرپشن کو لیکر کانگریس قیادت اور وزیر اعظم سنجیدہ نہیں ہیں۔ پردھان منتری کی بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ٹائم پاس کررہے ہیں۔ جتنے دن اور چل جائیں چلتے رہیں۔ انہیں پارٹی کی قطعی فکر نہیں ہے۔ بار بار راہل گاندھی کو سرکار کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے درخواست پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ پارٹی کو اس سرکار کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اپوزیشن بٹی ہوئی ہے اور بھاجپا ابھی بھی جنتا میں بھروسہ نہیں قائم کرسکی کہ و ہ کانگریس کا متبادل بن کر ابھر سکے۔ یہ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ نریندر مودی اور راجناتھ سنگھ کی جوڑی نے ماحول اپنے حق میں کرنے کے لئے جی جان لگا رکھی ہے۔ کانگریس اور سرکار کے پاس سب ٹھیک کرنے کے لئے وقت کم ہے۔ یوپی اے سرکار کو اپنے باقی بچے سال میں ایسی فلاحی اسکیمیں لانا ہوں گی جس سے عوام میں سرکار کے تئیں اعتماد کی بحالی ہوسکے۔
(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟