نکسلی تو گولی چلانے والے ہیں لیکن گولی چلوانے کے پیچھے کون و کیوں؟

چھتیس گڑھ میں ہوئے نکسلی حملے کے پیچھے گہری سازش کی بو آرہی ہے۔ ہتھیار بند گوریلوں کے ذریعے چھتیس گڑھ کانگریس صدر نند کمارپٹیل اور ان کے بیٹے دنیش کو جس طرح چن چن کر مارا گیا اس سے نکسلیوں کی سیاست کو جاننے والے بھی حیران ہیں۔ پٹیل کے ساتھ اسی گاڑی میں بیٹھے ممبر اسمبلی کواسی لکمہ کو چھوڑدئے جانے اور پٹیل و ان کے بیٹے کو400 کلو میٹر دور لے جا کرگولی مارنے پر شک ظاہر ہونا فطری ہے۔ واقف کاروں کا کہنا ہے پٹیل ماؤ وادیوں کی ہٹ لسٹ میں نہیں تھے اس کے باوجود ان کے بیٹے تک کا خاتمہ کیا جانا پہلے ہوئے ماؤوادی واقعات سے میل نہیں کھاتا۔ پٹیل کے چھوٹے بیٹے امیش نے بھی الزام لگایا کہ ان کے والد کے قتل کے پیچھے سیاسی سازش لگتی ہے۔ اس قتل عام سے فائدہ کس کس کو ہوتا ہے؟ حکمراں بھاجپا چناوی سال میں ایسے حملوں سے کیوں اپنے امکانات کو ملیا میٹ کرے گی؟ وزیراعلی رمن سنگھ نے مانا ہے کہ حملے کے لئے سکیورٹی انتظام میں کمی بھی ذمہ دار ہے مگر نیتاؤں کو مناسب سکیورٹی نہ دینے کے الزامات غلط ہیں۔ جبکہ کانگریس کے نوجوان لیڈرراہل گاندھی کے مطابق حملے کے لئے حفاظتی انتظام میں کمی ذمہ دار ہے۔ ریاستی کانگریس کے ورکروں کی حفاظت کے تئیں وہ سنجیدہ نہیں ہیں۔ وزیراعلی یہ بتائیں کے آخر یہ واقعہ کیسے ہوگیا؟ الزام در الزام کا یہ سلسلہ تیز ہوگا کیونکہ یہ چناوی برس ہے لیکن ہمیں بنیادی شک و شبہات میں نہیں پڑنا چاہئے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ 800 سے 1000 نکسلی ایک مقام پر اکٹھے کیسے ہوگئے؟ کیا اتنی تعداد میں نکسلیوں کی نقل و حرکت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی؟ کسی بھی طرح کی نگرانی نہیں ہوئی خاص طور پر جب نکسلیوں نے ایسے حملے کی دھمکی دے رکھی تھی اور کہا تھا کہ کانگریس اپنی مجوزہ یاترا کو منسوخ کرے ۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ کانگریسی لیڈروں کے قافلے کا روپ عین وقت پر کیوں بدلا گیا؟ کانگریس قافلے کو پہلے دوسرے راستے سے گذرنا تھا لیکن تبدیلی روٹ پر قافلہ اسی راستے سے واپس لوٹا جس راستے سے وہ پہلے گذرا تھا۔ نکسلی حملوں کو قریب سے جاننے والے لوگوں کا کہنا ہے یاترا کے راستے میں تبدیلی کی جانکاری کسی نے تو نکسلیوں کو دی ہوگی جس سے وہ حملے کی تیاری کرسکیں۔ اتنی بڑی سطح پرحملہ بغیر کسی پلاننگ کے ممکن نہیں ہے۔ سکما سے جگدلپور روٹ بدلنے پر سوال اٹھایا جانا فطری ہے۔ کانگریس لیڈر اجیت جوگی نے تبدیل شدہ یاترا روٹ کے بدلنے پر سوال کھڑے کئے ہیں۔ واقف کار یہ بھی بتاتے ہیں نکسلی علاقے میں جو راستہ آنے کے لئے چنا جاتا ہے اس سے واپس نہیں جانا چاہئے۔ اس حملے میں کانگریس کے دو سینئر لیڈروں سمیت 27 لوگ مارے گئے۔ خبر ہے کہ آبادی پولٹ بیورو کے ممبر کٹکم سدرشن عرف آنند حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا اور این آئی اے ٹیم موقعے پر پہنچ چکی ہے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا پولیس کے ڈائریکٹرجنرل راجیو کمارسنگھ کی رہنمائی میں این آئی اے ٹیم سے مل کر واقعہ کی جانچ میں لگ گئے ہیں۔ اتنا صاف ہے کہ کانگریس کے سینئر لیڈر مہندر کرما نکسلیوں کے نشانوں پر کافی دنوں سے تھے۔ چھتیس گڑھ میں ان کے خلاف تحریک کا انہیں سب سے زیادہ اور سرکردہ لیڈر مانا جاتا تھا۔ اس لئے انہیں بستر کا ٹائیگر بھی کہا جاتا تھا۔ جب انہوں نے نکسلیوں کے خلاف سلواجوڈم تحریک کی شروعات کی تو مہندر کرما کو ہی اسکا روح رواں مانا گیا۔ چھتیس گڑھ اسمبلی سے2003 سے09 کے درمیان اپوزیشن کے لیڈر رہے مہندر کرما نے اپنے خاندان کے درجن بھر لوگوں کو نکسلیوں کے حملوں میں کھویا ہے۔ اس سے پہلے بھی نکسلی بار بار کرما پر جان لیوا حملہ کرچکے ہیں جن میں وہ بچ جاتے تھے۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر سیاست کرنے والے اس بہادر لیڈر کا دلواڑے جل میں واقع آبائی گاؤں میں انتم سنسکارکردیاگیا ہے۔ بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر کی شکل میں اپنی سیاست شروع کرنے والے مہندر کرما چار مرتبہ ممبر اسمبلی چنے گئے ۔ ایسے نڈر اور ہمت والے نیتا کے جانے سے جہاں کانگریس پارٹی کو زبردست نقصان پہنچا ہے وہیں پورا دیش آج انہیں سلام کرتا ہے۔ کاش ان کی طرح اور بھی سیاستداں نڈر ہوتے تو آج نکسلی مسئلہ اتنی سنگین شکل نہ اختیارکرتا۔ یہ تشفی کی بات ہے کہ اس حملے میں سنگین طور سے زخمی سابق مرکزی وزیر اور کانگریس کے سینئر لیڈر ودیا چرن شکلا کا گوڑ گاؤں کے ہسپتال میں علاج چل رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی حالات میں سدھار آڑہا ہے۔ 84 سالہ شری شکلا کو ٹھیک ہونے میں کافی وقت لگے گا۔ اس حملے کی باریکی سے جانچ ہونی چاہئے۔ ہمیں تویہ صاف لگ رہا ہے کہ کہ یہ حملہ کسی سنگین سیاسی سازش کا نتیجہ ہے۔

 (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟