اقتدار میں سیاستدانوں کے سر میں سر نہ ملائیں سرکاری افسر

بھلے ہی مرکزی سرکار ہو یا ریاستی حکومت ہو ان کی کارگذاری کا دارومدار افسر شاہی پرمنحصر کرتا ہے۔ یوپی اے کی مرکزی سرکار تو افسروں کے دم پر ہی چل رہی ہے۔ خود افسر شاہ رہ چکے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے عہد میں افسر شاہی کافی طاقتور ہوئی ہے۔ وہ شاید اس سے پہلے کسی بھی سرکار میں نہیں تھی۔ افسر برادری بھی یہ بھول جاتی ہے کہ اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کے ارادے سے وہ سارے تقاضے اور آئینی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر سبھی حدیں پارکرجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں دیش کی بڑی عدالت سپریم کورٹ نے سرکاری افسروں کی کھنچائی کرتے ہوئے مشورے دئے ہیں کہ وہ اقتدار میں بیٹھے سیاستدانوں کے دباؤ میں کوآپریٹو بینک کے ڈائریکٹر منڈل کو بھنگ کرکے ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کے مدھیہ پردیش سرکار کی کارروائی پر عدالت نے سخت رخ اپنایا ہے۔ عدالت نے دیش کے سبھی کوآپریٹو منتظمین کو آگاہ کیا ہے کہ وہ اقتدار میں بیٹھے آقاؤں کے سر میں سر ملا کر غیر قانونی کام کرنے سے بچیں۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمے بازی میں خرچ ہوا پیسہ قرض دہندہ کے بجائے سرکاری افسروں سے وصولہ جائے گا جو قانون سے ہٹ کر سیاسی دباؤ میں فیصلہ لیتے ہیں۔ جسٹس ایس رادھا کرشن و جسٹس دیپک مشر کی بنچ نے مدھیہ پردیش کے ضلع کو آپریٹو بینک کے منتخبہ ڈائریکٹر زون کو بحال کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے کہا جس میعاد تک ڈائریکٹر بورڈ کوبرخاست رکھا گیا اس میعاد تک وہ ڈائریکٹر کی شکل میں کام کریں گے۔ بنچ نے اس بات پر بھی سخت اعتراض جتایا کے ریزرو بینک آف انڈیا کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرکے ڈائریکٹر زون کو برخاست کردیا گیا۔ بینکنگ قواعد کے مطابق آر بی آئی سے مشورہ کئے بغیر ندیشک منڈ ل کو اور اس کے منتخبہ دفتر سے ہٹایا نئی جاسکتا۔ ساگر کے جوائنٹ رجسٹرار نے ڈائریکٹر منڈل کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرکے ڈھائی سال بعدبھنگ کردیا۔ اس سے صاف ہے کہ سرکاری افسروں نے سیاسی دباؤ میں یہ فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ گروپ بندی کو لیکر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کرکے قرض دہندہ کے پیسے کو پانی کی طرح بہانا سمجھ سے باہر ہے۔ عدالت نے ریاستی سرکار پر 1 لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا اور جرمانے کی رقم ایک ماہ کے اندر مدھیہ پردیش لیگل سروس اتھارٹی میں جمع کرانی ہوگی۔ ساگر کے جوائنٹ کوآپریٹو رجسٹرار پر بھی 10 ہزار روپے کا جرمانہ کیا گیا ہے۔ یہ رقم اس کی تنخواہ سے کاٹی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے اس بات پر سخت اعتراض کیا کہ آڈٹ رپورٹ میں معمولی اعتراض کی آڑ میں منتخبہ ڈائریکٹر بورڈ کو اس کے آئینی اختیارات سے محروم کیا گیا۔ آر بی آئی نے بھی سپریم کورٹ کو بھیجی اپنی رپورٹ میں کہا کہ آڈٹ رپورٹ کے اعتراضات روٹین کے ہیں۔ کوآپریٹو بینکوں کے اس طرح کے معاملے بڑی تعداد میں عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اس لئے اس سلسلے میں گائڈ لائنس جاری کرنے کی سخت ضرورت ہے جب تک سرکاری افسروں کی جوابدہی طے نہیں کی جاتی تب تک وہ اپنے سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر کام کرتے رہیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟