منموہن سنگھ کے جاپان دورہ سے بوکھلایا چین

وزیراعظم منموہن سنگھ ایک نازک اور اہم موقعہ پر جاپان گئے ہیں۔ ان کا دورہ بھارت کے لئے کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت جاپان اشتراک کے کئی اہم پروجیکٹ بھارت میں دونوں دیشوں کے بڑھتے تعاون کا ثبوت ہیں چاہے ہم بات کریں دہلی کی میٹرو ریل سروس کی چاہے بات کرتیں سڑکوں پر گھوم رہی ماروتی گاڑیوں کی اور دیش کی ڈھانچہ بند ضرورتوں کی، ہر سیکٹر میں جاپان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ اشتراک کیا ہے۔ دورہ کے 20 دن پہلے اتنا تو لگنے لگا تھا کہ یہ کوئی عام دورہ نہیں ہونے جارہا ہے۔ لداخ میں بھارت۔ چین کشیدگی کے دوران چینی وزیر اعظم لی کیانگ کے دورۂ ہند کے درمیان منموہن سنگھ نے اپنے جاپان دورہ کی میعاد ایک دن سے بڑھا کر دو دن کرنے کی بات کہی تھی اس وقت سیاسی خیرسگالی اور بھارت نے امریکہ جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ ممکنہ چوطرفہ بحری جنگی مشقوں سے خود کو باہر رکھنے کا اعلان ضرور کیا تھا لیکن ابھی سمندری اور زمینی دونوں جگہوں سے اڑان بھرنے والا ایوین ایئر کرافٹ خریدنے کا سمجھوتہ جاپان سے کرکے پہلی بار دونوں ملکوں میں فوجی رشتوں کی گنجائش بھی نکال لی ہے۔ پچھلے 15 برسوں سے یعنی پوکھرن۔2 کے بعد نیوکلیائی عدم پھیلاؤ کے اشو کو لیکر جاپان کے ساتھ رشتوں میں گرمجوشی میں تھوڑی کمی ضرور آئی تھی لیکن نئے جاپانی وزیر اعظم شنجو ایبے اپنے دیش کی قائم روایت کے برعکس جاتے ہوئے بھارت کو نیوکلیائی ایندھن سپلائی کرنے تک کا من بنا رہے ہیں۔ ایٹمی بجلی سیکٹر میں جاپان دنیا کا جانا مانا کھلاڑی ہے۔ منموہن سنگھ کے دورہ کے ایک ہفتے پہلے جاپان نے ایسی زمین تیارکرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ ایٹمی تعاون کو آگے بڑھانے کے لئے پراعظم ہے۔ حالانکہ وہ یہ کہنے سے بھی نہیں چوکا کہ فوکوشیما نیوکلیائی پلانٹ میں حادثے کے باوجود بھارت کا اس کی نیوکلیائی تکنیک پر بھروسہ ہے۔ دونوں ملکوں کے تعاون کو اور بلند ملنے والی ہے۔ جاپان کے ساتھ موجودہ رشتے زیادہ پائیدار بنانے میں چین کی ناراضگی سامنے آنے لگی ہے۔ چین جس طرح ہمارے علاقوں پر اپنا دعوی ٹھونک رہا ہے۔ رشتوں میں اور زیادہ تلخی بڑھانے میں مصروف ہے۔ کم و بیش وہی حالات اس نے جاپان کے ساتھ بھی بنائے ہوئے ہیں۔ مشرقی چین ساگر میں جاپان کے اہم جزیروں پر چین کا قبضہ دونوں ملکوں کے درمیان خطرناک ڈھنگ سے کشیدگی بڑھا رہا ہے۔ دونوں کے رشتے کتنے بگڑ چکے ہیں اس کا اندازہ جاپان کے نائب وزیر اعظم تاشوایشو کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جو حال ہی میں انہوں نے بھارت کے دورہ کے دوران دیا تھا اور چین پر کھلا حملہ بولتے ہوئے ایشو نے کہا تھا کہ ڈیڑھ ہزار برسوں کی تاریخ میں جاپان اور بھارت کے ساتھ چین کا رویہ کبھی دوستانہ نہیں رہا۔ بھارت اور جاپان کے درمیان بڑھتی قربت سے بوکھلاہٹ چین کے ایک سرکاری اخبار نے کہا کہ نئی دہلی کی عقل مندی بیجنگ کے ساتھ اپنے تنازعوں کو گھریلو اور بین الاقوامی اکساوے سے متاثر ہوئے بنا پرامن طریقے سے نپٹانے میں ہے۔ اخبار نے کہا کہ چین بھارت رشتوں میں کئی اختلاف اور تضاد ہیں۔ کچھ دیش ان اختلافات کو بڑھانے کے موقعہ فراہم کرسکتے ہیں۔اخبار نے جاپانی وزیر اعظم شیجو ایبے کی اس اپیل کا بھی ذکر کیا جس میں انہوں نے جاپان، بھارت، آسٹریلیا اور امریکہ کا جوائنٹ مورچہ بنائے جانے پر زور دیا ہے۔ کل ملا کر وزیر اعظم منموہن سنگھ کا دورۂ جاپان دونوں ملکوں کو قریب لانے میں کامیاب رہا۔ دورہ سے آپسی اشتراک کے نئے راستے کھلیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟