چین کو دیا انٹونی نے کرارا جواب



Published On 2 March 2012
انل نریندر

چین بھارت سے ٹکر لینے سے باز نہیں آتا، کچھ نہ کچھ شوشہ چھوڑتا رہتا ہے۔ تازہ قصہ ہندوستان کے وزیر دفاع اے کے انٹونی کے دورہ اروناچل پردیش کو لیکر ہے۔ اروناچل پردیش پر دعوی جتاتے ہوئے چین نے پھر ہندوستان کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی ہے۔اس مرتبہ ڈریگن وزیر دفاع اے کے انٹونی کے دورہ اروناچل پردیش سے لیکر بوکھلا گیا ہے۔ اس نے ہندوستان کو کھلے عام آگاہ کیا ہے کہ بھارت کو ایسے کسی بھی قدم سے بچنا چاہئے جس سے سرحدی تنازعہ مزید پیچیدہ ہونے کا اندیشہ ہو۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہانگلی نے سرحدی علاقوں میں امن اور استحکام بنائے رکھنے کے لئے بھارت سے چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کوکہا ہے۔ چین کی سرکاری ایجنسی ژنہوا کے مطابق انہوں نے کہا کہ سرحدی تنازعے پر چین اپنے موقف پر قائم ہے اور اس کا نظریہ بالکل صاف ہے۔ دراصل اروناچل جنوبی تبت کا حصہ ہونے کا دعوی کررہا ہے۔ چین کسی بھی سینئر ہندوستانی سرکاری نمائندے کی ریاست کے دورہ پر اپنا اعتراض جتا رہا ہے۔ وہ اروناچل کے لوگوں کو ویزا دینے سے بھی انکار کرتا رہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے مخصوص نمائندوں کے درمیان سرحدی تنازعے پر بات چیت کے 15 دور ہوچکے ہیں۔ جنوری سے جون2010 میں سکم سے لگے علاقے میں چینی فوج نے 65 بار ہندوستانی علاقے میں گھس پیٹھ کی کوشش کی۔ حالانکہ حکومت ہند نے ہمیشہ تنازعے کو ٹھنڈا کرنے اور اسے ہل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس بار ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ وزیر دفاع اے ۔ کے انٹونی نے چین کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔ ایسی زبان چین سمجھ سمجھتا ہے۔ اے ۔ کے انٹونی نے چین کو اس اشو کو لیکر پیر کو کھری کھوٹی سنائی۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی رائے زنی بیحد افسوسناک اور قابل اعتراض ہے۔ چین کے اس رویئے پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے وزیر دفاع اے ۔ کے انٹونی نے کہا کشمیر کی طرح ہی اروناچل بھی بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور بطور وزیر دفاع وہاں جانا ان کا حق اور فرض ہے۔ ایک پروگرام سے نمٹنے کے بعد اخبار نویسوں کے سوالوں کے جواب میں وزیر موصوف نے کہا کہ وہ اروناچل پردیش کی یوم تاسیس کی 25 ویں سالگرہ پر منعقدہ تقریب میں حصہ لینے گئے تھے اور یہ ان کا حق بنتا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا مجھے یہ رد عمل دیکھ کر کافی حیرانی ہوئی ہے اس طرح کا تبصرہ عام طور پر افسوسناک ہی مانا جاتا ہے اور اس پر انہیں اعتراض ہے۔ ایتوار کو بنگلورو سے وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے چین کے رد عمل پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اروناچل پردیش بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس معاملے میں اسے دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔ وزارت خارجہ کے اعلی ذرائع نے تو بیجنگ کو یہ کہہ کر پیغام دیا کہ اروناچل میں جنتا نے ہندوستانی لیڈروں کو جمہوری طریقے سے ہوئے چناؤ میں ووٹ دیا ہے اس میں اپنے آپ میں ہی بیجنگ کو جواب دیکھ لینا چاہئے۔ چین کو کھری کھوٹی سناتے ہوئے وزیر دفاع نے نیوکلیائی آبدوز کو ہندوستانی بحریہ میں شامل کرنے پر اعتراض جتا رہے پاکستان کو بھی دو ٹوک انداز میں جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اپنی سلامتی کے لئے اپنی فوجی صلاحیت بڑھا رہا ہے نہ کہ اس کا ارادہ کسی سے ٹکراؤ کا ہے۔ ابھرتے سلامتی پس منظر میں بھارت ہر ضروری فوجی قدم اٹھائے گا۔ ہم وزیر دفاع اے ۔ کے انٹونی کے چین اور پاکستان دونوں کو دو ٹوک جواب دینے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا تاکہ چین کو سمجھ میں آجائے کہ وہ اب بھارت کو اتنی آسانی سے نہیں ڈانٹ سکتا۔
A K Antony, Aksai Chin, Anil Narendra, China, Daily Pratap, Sikkim Chief Minister, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟