ناروے سرکارکے قانون قدرت کے قانون سے بالاتر نہیں ہیں



Published On 1 March 2012
انل نریندر
ہم ناروے کے قوانین اور دیش کا احترام کرتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ ہر ملک کو اپنا قانون بنانے کی آزادی ہے۔ اگر وہاں کی عوام کسی قانون پر عمل کرتی ہے تو حکومت اسے اسی روایت کی حمایت کرتی ہے تو سرکار اسے قانون بنا سکتی ہے لیکن کچھ ایسے قانون بھی ہوتے ہیں جو اوپر والا بناتا ہے اور اسے ہر آدمی ، حکومت و دیش کو ماننا چاہئے۔ ایسے ہی قوانین میں بچوں کی پرورش ماں باپ کوکرنے کا حق ہے۔ آپ چھوٹے بچوں کو ان کے ماں باپ سے الگ کررہے ہیں تو یہ کیسا عجیب قانون ہے۔ ایسا ہی ایک قانون آج کل موضوع بحث ہے۔ دراصل پچھلے سال نومبر میں ناروے کے حکام نے ایک شخص انوروپ اور ان کی اہلیہ سگاریکا مہاچاریہ کے ساتھ رہ رہے اس کے بچوں کو سرکار کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔ بچوں کے نام ہیں ابھیگیان تین سال اور ایشوریہ ایک سال۔ پیشے سے جغرافیائی سائنسداں انوروپ بھٹاچاریہ پر ناروے سرکار کا الزام ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے بچوں کو کھانا کھلاتے تھے، انہیں اپنے ساتھ ہی بستر پر سلاتے تھے، بچوں کے نانا منتوش چکرورتی نے کہا کہ انہیں اپنے بچوں کو واپس لانے کی مہم میں ساری دنیا کی حمایت مل رہی ہے۔ ادھر نئی دہلی میں ناروے سفارتخانے کے سامنے چار روزہ دھرنا شروع ہوچکا ہے۔ پہلے دن لوگوں اور سیاستدانوں سے ملی حمایت سے لگتا ہے کہ اگر ناروے حکومت انوروپ بھٹاچاریہ کے تین سال کے بیٹے ابھیگیان اور ایک سال کی بیٹی ایشوریہ کو بھارت بھیجنے میں اپنی بندشوں کو نہیں چھوڑتی تو یہ تحریک ملک گیر ہوسکتی ہے۔ پیر کو امریکہ، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، فرانس، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ سمیت 14 سے زائد ممالک میں اڈوپٹ کرنے والے اور ان کے خاندانوں کے افراد نے میل کے ذریعے ناروے کی حکومت کی مذمت کی ہے۔ پیغامات میں کہا گیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔ یہ لڑائی انسانیت کے تحفظ کے لئے ہے۔ پہلے سے طے پروگرام کے تحت پیر کو صبح 11 بجے لوگ ناروے سفارتخانے کے باہر پہنچے اور کچھ وقت کے بعد ہی پولیس نے انہیں چانکیہ پوری مارگ کی طرف بھیج دیا جہاں پر وہ دھرنے پر بیٹھ گئے۔ دھرنے کے پہلے دن ابھیگیان اور ایشوریہ کے نانا ،نانی اور ان کے کنبے کے افراد ،لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج ،مارکسی ایم پی برندا کرات اور مارکسوادی لیڈر عینی راجہ ، مقامی ناروے سفارتخانے کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئے۔مظاہرے میں شرکت کررہے لیڈروں نے کہا کہ وہ اس مسئلے کو 12 مارچ سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران بھی اٹھائیں گے۔
سشما جی نے کہا کہ ناروے حکومت کا یہ قدم انسانیت مخالف ہے اس لئے اسے چاہئے کہ بغیر وقت گنوائے بچے کو ان کے رشتے داروں کو سونپنے کی پہل کرے۔ مارکسی لیڈر برندا کرات کا کہنا ہے کہ جب بچوں کے والدین و رشتے دار اپنے بچوں کو بھارت لانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت ہند نے بھی معاملے میں سرگرمی دکھاتے ہوئے وزارت داخلہ میں سکریٹری نے ناروے کے وزیر خارجہ جونس گار اسٹور سے ملاقات کی۔ انہوں نے بچوں کو ان کے والدین کو لوٹانے کیلئے درخواست کی۔ ذرائع کے مطابق اس پورے معاملے پر ناروے کے رویئے سے بھارت بہت مایوس ہے۔ ملاقات مثبت رہی اور امید کی جانی چاہئے کہ ناروے کی حکومت جلد بچوں کو ماں باپ کو سونپ دے گی۔ وہ بیشک ایسا بے تکا قانون اپنے شہریوں پر تھونپے لیکن اس دیش میں رہ رہے غیر ملکیوں پر نہیں تھونپ سکتی۔

Anil Narendra, Children Separated, Daily Pratap, Norway, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟