ہم جنس رشتوں کے آئینی جواز پر گرمایا معاملہ



Published On 1 March 2012
انل نریندر
ہم جنس رشتوں کو نہایت غیر اخلاقی قرار دے کر انہیں جرائم کے زمرے سے باہر رکھنے پر نامنظوری ظاہر کرنے کے بعد حکومت ہند نے اپنا موقف پلٹ لیا ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل پی پی ملہوترہ نے سپریم کورٹ میں دلیل پیش کی کہ سیملنگ تعلقات سماجی نظام کے منافی ہیں اور ہندوستانی سماج بیرونی ممالک میں رائج روایتوں کو نہیں اپنا سکتا۔ ملہوترہ نے جسٹس جی ایس سنگھوی اور جسٹس ایس جے مکھ اپادھیائے کی ڈویژن بنچ کے سامنے کہا ہم جنس رشتوں سے بیماریاں پھیلنے کے کافی امکانات ہیں۔ سپریم کورٹ نے گذشتہ بدھ کو اس سلسلے میں ہم جنس حق مخالف گروپوں سے سوال جواب کئے تھے۔ عدالت عظمیٰ نے سیملنگ حق مخالف گروپ سے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے طے میعاد کا دائرہ بڑھانے اور اپنی دلیلوں کو صرف جسمانی رشتوں تک محدود نہ رکھنے کو کہا تھا کیونکہ اشو پر قطعی فیصلے میں وسیع پیچیدگیاں کھڑی ہوں گی۔ عدالت نے یہ بھی سوال کیا کہ دیش میں ہم جنس لوگوں کے خلاف اس طرح کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے لئے درج معاملوں کی تعداد کتنی ہے؟ عدالت نے یہ بھی کہا کہ دو بالغوں کے درمیان رضامندی کی بنیاد پر سیملنگ تعلق کو کرائم کے زمرے سے الگ کرنے کا دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ دور رس اثر ڈالنے والا ہے۔ اس کے سبھی پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہئے۔ بنچ نے جاننا چاہا مرد ہم جنس (گے سیکس) کو کون کون سے دیشوں میں جرائم مانا گیا ہے۔ سیملنگ کمیونٹی کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 377 کے تحت مقدمہ درج کرنے کی اجازت ہے۔ سیملنگ کمیونٹی دفعہ 377 کو غلط مانتی ہے۔کا کہنا ہے کہ اس قانون کے ذریعے انہیں بے وجہ پریشان کیا جاتا ہے۔ بنچ کی رائے تھی کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کا اثر دیگر قوانین پر بھی پڑے گا۔ قابل ذکر ہے کہ 2009ء میں سیملنگ رشتوں کو جب جائز مان لیا گیا تھا جب دہلی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایسے رشتوں کو جرائم کے زمرے سے باہر کردیاتھا۔ دیش کی کئی سماجی ،سیاسی اور مذہبی تنظیموں نے اس فیصلے پر سخت اعتراض ظاہر کیا تھا۔
اس فیصلے کے خلاف آدھا درجن اپیلیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے وقت اور نظریئے کے دائرے کو بڑھانے کو کہا تھا۔ اس سے پہلے بنچ نے کہا تھا کہ ہم جنسی کو بدلتے سماج کے پس منظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ بنچ نے 'لو ان ریلیشن شپ' سنگل پیرنٹ اور سروگیسی کا حوالہ دیا تھا۔ اطفال تحفظ کمیشن کی جانب سے کورٹ کے فیصلے کی مخالفت میں دلیل دی تھی کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ غیر ملکی عدالتوں کے فیصلے پر منحصر کرتا ہے۔ بھارت کی تہذیب بیرونی ممالک سے الگ ہے۔ اسے ہندوستانی معاشرے سے دیکھا جانا چاہئے۔ سماعت کی پچھلی تاریخ پر سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ غیر معمولی اور غیر فطری ہم جنس پرستی میں فرق ہے۔ قدرت کے برعکس جنسی خواہشات کو غیر فطری طریقے سے کہا جاسکتا ہے لیکن اسے غیر فطری کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ سیملنگ کو بدلتے ہوئے سماجی پس منظر کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آج سے 20-25 سال پہلے تک ان چیزوں کو غیر اخلاقی مانا جاتا تھا اب یہ قابل قبول ہیں۔ ہائی کورٹ کے 2 جولائی 2009ء کے فیصلے پر دیش بھر میں سخت منفی رد عمل سامنے آیا تھا۔ عدالت نے رضامندی کی بنیاد پر دو مردوں کے درمیان ہم جنسی کو منظوری دے دی تھی۔ راضی بالغوں کے پس منظر میں دفعہ377 کے تحت اسے غیر قانونی قرار دینے کی سہولت کو ہائی کورٹ نے غیر آئینی قرار دیا تھا۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Gay, Sex, Supreme Court, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟