پاک مقبوضہ کشمیر اور اقصائی چن بھارت کے بنیادی حصے

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے لوک سبھا میں دفعہ 370 کے متعلق سنکلپ و ریاست تشکیل نو بل پر کہا تھا کہ پاکستان کے قبضہ والامقبوضہ کشمیر اور اقصائی چن سمیت جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ جب جب میں نے جموں و کشمیر بولا ہے تب تک اس میں پاکستانی اقصائی چن بھی شامل ہیں اور اس بیان کے بعد پاکستان اور چین کے سامنے بھارت نے جموں کشمیر کو لے کر اپنی سیاست اور اپنی حکمت عملی صاف کر دی ہے اور آئیے جانتے ہیں کہ کشمیر کے ان حصوں کے بارے میں کہ کیا ہے مقبوضہ کشمیر یہ جموں کشمیر کے مغرب میں واقع ہے اور ریاست کا حصہ ہے اور جسے پاکستان نے 1947 میں حملہ کر کے قبضہ کر لیا تھا اور اب وہ پاکستان اسے آزاد کشمیر کہتا ہے اور وہ اسے پاکستان نے دو حصوں میں بانٹا ہوا ہے ایک حصہ کشمیر میں ہے اور ایک حصہ گلگت بلتستان ہے۔ کشمیر کا رقبہ 13300 مربع کلو میٹر یعنی ہندوستانی کشمیر کا تین گنا ہے اس کی آبادی 45 لاکھ ہے اور پی او کے کی سرحدیں پاکستان ، پنجاب اور واک کھانے گلیارے ، چین کے شنگ زیان علاقے اور ہندوستانی کشمیر سے مشرق میں لگتی ہےں اور اس کی راجدھانی مظفر آباد ہے اس میں آٹھ ضلع اور 19 تحصیلیں اور 182 وفاقی کونسلیں ہیں اور پاکستان کی مقبوضہ کشمیر کی حالت بہت خراب ہے اس حصہ میں حکومت جان بوجھ کر ترقی نہیں دی ہے کہ یہاں پر آباد لوگ جان بوجھ کر دہشت گردی کرسکیں اور ہندوستان کو نقصان پہنچا سکیں۔ممبئی دہشتگردانہ حملہ میں زندہ پکڑے گئے اجمل قصاب کو پی او کے کی راجدھانی مظفر آباد میں ہی ٹریننگ دی گئی تھی۔ گلگت کو کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے برطانوی حکومت کو پٹہ پر دے دیا تھا۔ بلتستان مغربی لداخ کا علاقہ تھا ایک حصہ سکسم وادی رقسم اور بلتستان کا علاقہ 1963 میں پاکستان نے چین کو سونپ دیا تھا اس علاقہ کو ٹرانس کاکورم ٹریک بھی کہا جاتا ہے وہیں اقصائی چن جموں کشمیر کا شمال مشرقی حصہ ہے اور ہندوستان اس پر اپنا دعویٰ کرتا رہا ہے اور چین اس کو اپنے سنگ زیان ریاست کا علاقہ بتایا ہے جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ 1962 کی لڑائی میں یہاں کی 38 ہزار مربہ کلو میٹر پر قبضہ کر لیا تھا اقصائی چن کا یہ علاقہ ویران اور برفیلا ہے اور یہ اروناچل کی سرداری کے تنازع کی جڑ تھے اس دوران دلائی لامہ کو پناہ دینا چین کو ناگوار گزرا فارورٹ پالیسی کے تحت چیک مور نے کنٹرول پر ہندوستانی چوکیاں بنائی اور اقصائی سڑک تعمیر میں دونوں ملک کو جنگ کی طرف دھکیل دیا تھا۔چین نے اکتوبر 1962 میں ہندوستان پر حملہ کر دیا تھا ۔20 نومبر 1962 کو جنگ بندی کر کے متنازع علاقوں میں فوج ہٹا لی تھی لداخ کا علاقہ ٹرانس کاکورم ٹریک پر بھی چین قبضہ کر رکھا ہے لیکن وزیر داخلہ نے صاف کیا ہے کہ مرکزی حکمراں لداخ میں اور ٹرانک کاکورم میں شامل ہوگا ۔
(انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟