جاتے جاتے بے وجہ تنازعہ کھڑا کر گئے حامد انصاری

نائب صدر کی میعاد پوری کرنے کے موقعہ پر محمدحامد انصاری تنازعہ کھڑا کر گئے۔ راجیہ سبھا ٹی وی کو دئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا دیش کے مسلمانوں میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے اور خوف کا ماحول ہے۔ نائب صدر کے طور پر حامد انصاری کا جمعرات کو آخری دن تھا۔ یعنی دیش کے آئینی عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے یہ بات کہی۔ حامد انصاری کی بات پر تنازعہ کھڑا ہونے اور اس سے عدم اتفاق جتایا جانا فطری ہے اس لئے اور بھی کیونکہ انہوں نے اتنی بڑی بات اپنا عہدے چھوڑتے وقت کہی۔ جاتے جاتے حامد انصاری ایسا کام کر گئے جس سے نہ صرف نائب صدر کے عہدے کو ٹھیس پہنچے بلکہ مسلم فرقے کا بھی بٹا کر گئے۔یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ اگر وہ مسلم سماج کو مبینہ طور پر غیر محفوظ دیکھ رہے تھے تو ایسا کہنے کے لئے کس بات کا انتظار کررہے تھے؟ کیا اپنے 10 سالہ عہد کے خاتمے کا ؟ یہ بھی سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ آخر وہ اس نتیجہ پر کب اور کیسے پہنچے کہ مسلمان بھارت میں ڈر کے سائے میں جی رہے ہیں؟ بہتر یہی ہوتا کہ وقت رہتے اور موقعہ پر اپنی بات کہتے ۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے سابق صدر پرنب مکھرجی نے وقتاً فوقتاً کہی ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو شاید سرکار ان کی بات پر غور کرتی اور سماج بھی ان کے تجزیئے کو صحیح پس منظر میں دیکھتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں جب وہ نائب صدر کے عہدے پر فائض تھے تو نہ تو انہیں مسلمانوں کی یاد آئی اور نہ ہی کسی دیگر اقلیتی فرقے کی؟ 10 سال مزے میں مکھن ،ملائی،حلوہ کھاتے اور غیر ملکی دورہ کرتے رہے تو انہیں مسلمانوں کی یاد نہیں آئی۔ جب گدی چلی گئی تو وہ ایک سیکولر شخص سے فرقہ پرست شخص بن گئے یا پھر ٹی وی اینکر نے کہا کہ عہدہ چھوڑتے وقت وہ ایک مسلمان بن گئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انصاری کو عہدہ مار لگ گئی تھی کہ انہوں نے سرکار کے اعلی لیڈروں کو کہلوا بھیجا تھا کہ ذہنی اور جسمانی طور سے ان کی صحت بہت بڑھیا ہے اور وہ اپنی تیسری پاری بھارت کی نیا کو بطور صدربننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ حامد انصاری کو ایسا ہرگز بھی نہیں کہنا چاہئے تھا ۔ کیونکہ بھارت میں مسلمان کے خلاف ایسی کوئی ہائے توبہ نہیں ہوئی ہے کیا انہیں معلوم نہیں کہ مسلمان صرف اللہ کے سوائے کسی اور سے نہیں ڈرتا۔ حامد انصاری نے یہ نشاندہی کرنے کیلئے کہ مسلمان خوف کے سائے میں ہے، گؤ رکشکوں کے حملوں کا حوالہ دیا اور ساتھ ہی کہا کہ الگ الگ لوگوں سے ایسا سنا ہے کیا کچھ لوگوں سے سنی باتیں یہ طے کرنے کی بنیاد بن جاتی ہیں کہ 18سے20 کروڑ کی وسیع آبادی والی مسلم اکثریت کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے؟ اس سے انکار نہیں کہ بے لگام گؤرکشکوں کی غنڈہ گردی کے کئی معاملہ سامنے آئے ہیں لیکن ان چند واقعات کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچنا تل کا تاڑ بنانا ہے کہ مسلمان ڈرے ہوئے ہیں۔ شری حامد انصاری نے عہدے سے ہٹنے کے موقعہ پر بھارت کے سماجی حالات پر جو رائے زنی کی ہے اسے لیکر ایک طبقہ بھاری احتجاج کررہا ہے کہ شری انصاری مسلمانوں کے خوف کے ماحول میں یا عدم تحفظ میں رہنے کا ذکر کرکے مودی سرکار کی پالیسیوں کی تلخ تنقید تب کررہے ہیں جب وہ عہدہ چھوڑنے والے تھے۔ پچھلے 10 سال سے وہ اسی سسٹم کا حصہ بنے ہوئے تھے اور سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے تھے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ مرکز میں حکمراں ہونے کے بعد مودی سرکار کے عہد میں پورے دیش میں فرقہ وارانہ دنگوں میں کمی آئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!