پاکستان کی 70 برس کی آزادی

1947ء کو دونوں بھارت اور پاکستان آزاد ہوئے تھے۔ 70 سال کے اس لمبے سفر میں دونوں دیشوں میں کتنا فرق آگیا ہے ۔ دونوں کی سیاسی تاریخ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پاکستان کی سیاست میں 70 سال میں تقریباً ساڑھے تین دہائی تک فوج اقتدار پر قابض رہی ۔ اس دوران پاکستان میں چار فوجی حکومتیں گدی نشیں ہوئیں اور اقتدار کا کنٹرول جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے پاس تھا۔ جنرل ایوب سے لیکر جنرل پرویز مشرف تک ہر دور میں ایک ہی کامن رد عمل سننے کو ملتا رہا جسے چنی ہوئی شہری سرکار کی نااہلی، کرپشن اور دیش کے لئے خطرہ کے دعوے سب سے اوپر تھے۔ دیش کی فوج چاہتی ہے کہ سبھی معاملوں میں اس کی صلاح سے سرکاریں چلائی جائیں۔ ڈیفنس ماہر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ باہری سکیورٹی کا بوجھ ان پر ہے۔ اندرونی سکیورٹی اور دہشت گردی سے مقابلہ بھی فوج کررہی ہے۔شہری حکومت کا رول محدود ہے اس لئے جب صلاح مشورہ کی کارروائی چلتی رہتی ہے تب تک حالات ٹھیک رہتے ہیں۔ حسن عسکری کے مطابق دوسرا اہم اشو بجٹ مسئلوں کا ہے۔ تیسرا ایسا ہوتا ہے کہ خود کو مضبوط بنانے کے لئے کچھ وزیر غیر ضروری طور سے فوج کی تنقید کرتے رہتے ہیں جس سے رشتوں میں کٹھاس آجاتی ہے۔ حال ہی میں نواز شریف کورٹ سے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے نااہل قرار دئے جانے کے بعد جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد سے لاہور پہنچے۔ اس یاترا کے دوران ان کی تقریروں میں درپردہ طور پر کہیں کہیں براہ راست طور پر بھی فوج اور عدلیہ کو ان کی برخاستگی کے لئے قصوروار ٹھہرایا گیا۔ عدالت کے ذریعے نواز شریف کو ہٹانے کے فیصلے نے دیش کو ایک بار پھر شہری سرکار کی ترجیحات کی بحث کو جنم دیا ہے۔ نواز شریف دو بار بھاری اکثریت سے اقتدرا میں آئے۔ یہ تیسرا موقعہ تھا جب انہیں عہدے سے ہٹنا پڑا لیکن اس بار رشتے بگڑنے کے کیا اسباب رہے؟ ڈیفنس ماہر عائشہ صدیقی کا خیال ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ خارجہ پالیسی تھی۔ نوازشریف خارجہ پالیسی کو آہستہ آہستہ بدلنا چاہ رہے تھے اور قومی سکیورٹی کے سوال کو ایک نیا باب دینے کی کوشش کررہے تھے۔ اس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے سینٹرمیں بھارت نہیں رہتا،یہ فوج کی دکھتی رگ تھا اور اس لئے میڈیا ٹرائل شروع کیا گیا۔ تاکہ میاں نواز صاحب کو ہٹایا جاسکے۔ ڈیفنس ماہر شجاع نواز کا کہنا ہے کہ فوج اور سول حکومت کے درمیان تضاد کی اہم وجہ بھی قول و فعل میں فرق بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سسٹم صرف باتوں سے نہیں بلکہ اسے کیسے چلاتے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس میں صرف سول حکومت یا فوج کی غلطی نہیں بلکہ یہ پوری پاکستان کی عوام کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کی بنیادی ضرورت گڈ گورننس کی ہے۔ جب سرکار لوگوں کی ضرورت پورا کرے گی اور ایمانداری سے کام کرے گی تو جنتا بھی اس کا ساتھ دے گی۔دوسری کوئی طاقت اسے بے دخل ہیں کرسکتی۔ پاکستان میں جہاں پچھلے 70 برس میں فوج کا سیاسی رسوخ بڑھا ہے وہیں چینی اور کھاد کارخانوں سے لیکر بیکری تک کے کاروبار میں بھی اس کی سانجھے داری میں اضافہ ہوا ہے تو کیا اقتدار کے سبب فوج کے کاروبار میں فروغ یا مضبوطی آئی ہے؟ پاکستان میں تاناشاہی کے دور میں صحافی بھی جمہوریت کی بحالی اور اظہاری آزادی کی لڑائی میں شامل رہے۔ سینئر صحافی راشد رحمان کا کہنا ہے کہ تاناشاہی کا ساتھ دینے والے صحافیوں کو بری نظر سے دیکھا جاتا تھا، لیکن آج کل حالات مایوس کون ہیں۔ ٹی وی چینلوں اور کچھ حد تک اخباروں میں جو خبریں چل رہی ہیں وہ فوج کا رابطہ عامہ شعبہ طے کرتا ہے۔ اسے جان بوجھ کر نہیں تو ڈر یا خوف یا کسی اور وجہ سے صحافیوں میں اپنالیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہ تو صحافت کی ضرورت پوری کررہا ہے اور نہ ہی وہ اپنی ذمہ داری پوری طرح نبھا رہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟