دیوالیہ جے پی انفراٹیک میں پھنسے 30 ہزار فلیٹ الاٹمنٹ

اپنے گھروں کا خواب سجائے بیٹھے ہزاروں لوگوں کوبڑا جھٹکا لگا ہے۔ مشہور جے پی گروپ کی سب سے بڑی کمپنی جے پی انفراٹیک اور امرپالی گروپ کی تین کمپنیوں کو جمعرات کے روز دیوالیہ اعلان کردیا گیا ہے۔ نیشنل کمپنی لا ٹربیونل (این سی ایل ٹی) نے الگ الگ بینکوں کی عرضی پر یہ فیصلہ سنایا ہے۔ اس سے تقریباً 47 ہزار زیر تعمیر فلیٹ خریدنے والوں پر سیدھا اثر پڑے گا۔ جے پی انفراٹیک پر قریب 8365 کروڑ روپئے کا قرض ہے۔ ٹریبونل نے بینک کی عرضی منظور کرتے ہوئے انویلسی اینڈ بینک کرپٹی بورڈ کے تحت تجویز تیار کر پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس سے ان ہزاروں سرمایہ کاروں کے گھر کا خواب پورا ہونے کی امیدوں کو زبردست جھٹکا لگا ہے جنہوں نے بڑی رقم ایڈوانس میں دی ہوئی ہے۔ کمپنی نوئیڈا گرینوں میں 27 ہزار جبکہ جمنا زون میں 3500 فلیٹ بنا رہی ہے۔ حالانکہ اسے مالی حالات بہتر کرنے کیلئے 271 دن کا وقت دیا گیا ہے۔ اس دوران وہ ایسا نہیں کرسکی تو اس کی پراپرٹی ضبط کرلی جائے گی۔ جے پی گروپ نے گرینو میں گولف کورس بنا کر علاقے میں اپنی چھاپ بنائی تھی۔ کام اور کمپنی کی ساکھ کو دیکھتے ہوئے جب اترپردیش میں بسپا کی سرکار بنی تو کمپنی نے نوئیڈا سے لیکر آگرہ تک پیر پسارے اور کامیابی بھی ملی، لیکن نوئیڈا سے لیکر آگرہ تک جمنا ایکسپریس وے اور اسمارٹ سٹی میں کروڑوں روپے کھپ گئے لیکن جب ریٹرن نہیں ملی تو کمپنی کے برے دن شروع ہوگئے۔ ادھر اقتصادی مندی اور نوٹ بندی کے بعد کمپنی کی مصیبت سے باہر نکلنے کا موقعہ بھی جاتا رہا۔ پردیش میں 2007ء میں جب بسپا سرکار آئی تھی تو جمنااتھارٹی کی معرفت پردیش سرکار سے معاہدہ ہوا تھا کہ گرینو سے لیکر آگرہ تک 185 میٹر لمبا اور 100 میٹر چوڑا جمنا ایکسپریس وے بنایا جائے گا۔ جے پی گروپ نے اپنے خرچ پر ایکسپریس وے بنایا تھا۔ اس کے بدل میں گروپ کو اتھارٹی نے 2500 ایکڑ زمین دی تھی۔ ایکسپریس وے بنانے میں گروپ کو قریب 14 ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے پڑے۔9 اگست2012ء کو جب ایکسپریس وے کا افتتاح ریاست کے اس وقت کے وزیر اعلی اکھلیش یادو نے کیا تھا تو سوچا گیا تھا کہ یہاں پر بڑی تعداد میں مسافر سفر کریں گے اور معاہدے کے مطابق 38 سال تک موٹی کمائی گروپ کو ملے گی۔ اسی وقت دہلی سے متھرا این ایچ۔ 2 اور غازی آباد سے لیکر علیگڑھ این ایچ۔1 بھی چوڑا ہوگیا۔ اس سے مسافروں کی تعداد جمنا ایکسپریس وے پر زیادہ نہیں بڑھ سکی۔ قریب 20 ہزار گاڑیاں ہر روز ابھی بھی وہاں سے گزرتی ہیں لیکن اس سے گروپ کا خرچہ بھی پورا نہیں نکل پارہا ہے۔ گروپ کو ایک اور جھٹکا تب لگا جب 2011ء میں گروپ نے نوئیڈا اور گریٹر نوئیڈا ایکسپریس وے پر بھی ٹول ٹیکس لگانے کی کوشش کی لیکن لوگوں کے احتجاج کے چلتے یہ کام نہیں ہوسکا جبکہ معاہدے میں تھا کہ گرینو سے متھرا تک ایکسپریس وے چالو ہونے کے بعدنوئیڈا ،گریٹر نوئیڈا ایکسپریس وے بھی جے پی گروپ کو سونپ دیا جائے گا۔ 2007-2017 ء تک سپا ۔بسپا سرکار رہی۔ زیادہ تر پروجیکٹ جے پی گروپ کو اسی کے عہد میں ملے۔ فارمولہ ون ریس ٹریک 18 اکتوبر 2011 ء کے افتتاح کے موقعہ پر جے پی گروپ نے دیش کی نامی گرامی ہستیوں کو بلایا تھا لیکن بسپا چیف کے علاوہ کوئی بڑا لیڈر تقریب میں شامل نہیں ہوا تھا۔ جب پردیش میں سپا کی سرکار بنی تو گروپ پر بسپا کا ٹھپہ لگنے کے سبب سپا نے نزدیکیاں نہیں بڑھائیں۔ ابھی حال میں اترپردیش میں بھاجپا کی سرکار نے دوری بنا رکھی ہے۔ جے پی انفراٹیک کا معاملہ ریزرو بینک کی طرف سے پہچان کئے گئے ان 12 معاملوں میں شامل ہے جن پر بینکوں کو صلاح دی گئی تھی کہ وہ اتھارٹی میں دیوالیہ کارروائی شروع کردیں۔ اس لئے یہ جے پی انفراٹیک کے علاوہ مونٹ اسپات جوتی اسٹکچرس الیکٹریک اسٹیل ، ایم ٹیک، آٹو بھوشن اسٹیل، بھوشن پاور اینڈ اسٹیل، لینکو انفراٹیک، اے بی جی شپ یارڈ، آلوک انڈسٹریزاور ایرا انفراٹیک اینڈ انجینئرنگ جیسی کمپنیاں شامل ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!