معصوم بچوں کی موت کا ذمہ دار کون؟(1)

گورکھپور میڈیکل کالج میں آکسیجن کی کمی سے تقریباً 30 بچوں کی موت نہ صرف تکلیف دہ ، چونکانے والا واقعہ ہے بلکہ یہ لاپروائی کی انتہا ہے۔ یہ اس لئے بھی چونکانے والا واقعہ ہے کیونکہ یہ وزیر اعلی آدتیہ ناتھ کے گورکھپور میں رونما ہوا۔ بتایا جارہا ہے کہ آکسیجن کی سپلائی ٹھپ ہونے سے اتنی اموات ہوئیں کیونکہ پیمنٹ رکنے کی وجہ سے آکسیجن دینے والی کمپنی نے یہاں سپلائی بند کردی تھی۔ دراصل بی آر ڈی میڈیکل کالج 6 ماہ میں 69 لاکھ روپے کی آکسیجن ادھار لے چکا تھا۔ گجرات کی سپلائر کمپنی پشپا سیلس کا دعوی ہے کہ قریب 100 بار خط لکھنے کے بعدبھی پیمنٹ نہیں ہوئی، پیسہ لینے جاتے تو پرنسپل ملتے ہی نہیں تھے۔ ایسے میں 1 اگست کو وارننگ دی گئی اور 4 سے سپلائی روک دی گئی۔ بدھوار سے آکسیجن ٹینک پھٹنے لگا۔ اس کے چلتے جمعرات اور جمعہ کو سنگین حالات کی وجہ سے 30 مریضوں کی موت ہوگئی۔ بتادیں ایک دن پہلے ہی یعنی بدھوار کو یوگی نے میڈیکل کالج کا دورہ کیا تھا لیکن انہیں کسی نے بھی آکسیجن کے سنگین مسئلہ سے واقف نہیں کرایا۔ یوپی سرکار نے موت کی خبروں کی تردید کی ہے اور کہا موتیں آکسیجن کی کمی سے نہیں ہوئی ہیں۔ آکسیجن سپلائی کی کمی کی جانکاری میڈیکل کالج انتظامیہ اور ضلع کے اعلی افسروں کو تھی لیکن اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے میڈیکل ایجوکیشن وزیر آشوتوش ٹنڈن اور اپر چیف سکریٹری میڈیسن اور ہیلتھ انیتا بھٹناگر جین کے ساتھ 9 اگست کو ہی میڈیکل کالج میں ہیلتھ سروسز کا جائزہ لیا تھا اس کے باوجود آکسیجن سپلائی میں دقت کی بات سی ایم تک نہیں پہنچ سکی۔ آکسیجن کی کمی سے 36 گھروں میں 48 مریضوں کی موت نے ہر عام و خاص کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ آخر فارم کو آکسیجن کی سپلائی ٹھپ کرنے کا رخ کیوں اپنانا پڑا؟ کئی بار نوٹس کے بعدبھی ادائیگی کیوں نہیں ہوئی؟ ذرائع کے مطابق کمیشن خوری کی لت کے چلتے یہ حالت بنی، آکسیجن سپلائی کرنے والی فرم کے بقایا کی فائل اسی لئے لٹکائی جاتی رہی۔ میڈیکل ایڈمنسٹریشن کے ایک افسر کی بیوی کو فائدہ پہنچانے کی بات بھی سامنے آئی ہے۔ ذرائع کی مانیں تو افسر کی بیوی کی رائے فرم کے افسرنے سرے سے اس بات کو مسترد کردیا۔ اس کے بعد فرم کی طرف سے بقایا ادائیگی کیلئے جب بھی ملاقات کی گئی تو بجٹ نہ ہونے کی بات کہتے ہوئے جلد انتظام کرنے کی تسلی دے دی جاتی تھی۔ ادائیگی نہ ہوئی ۔ اتر پردیش کے سرکاری اسپتالوں میں رام راکھا ہے۔ زیادہ تر ڈاکٹر اپنی پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں اور سرکاری اسپتالوں کے مریضوں پر بالکل توجہ نہیں دیتے۔ وزیر اعلی آدتیہ ناتھ کے انتخابی حلقہ گورکھپور کے میڈیکل کالج میں جو انہونی ہوئی اس سے صاف ہے کہ ریاستی سرکار کی تمام سختی کے بعد بھی انتظامی مشینری سدھرنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ یہ مشینری بنا سختی دکھائے اور جان لیوا ثابت ہوئی۔ بد انتظامی کیلئے ذمہ دار افسروں کو حقیقت میں جوابدہ بنائے بغیر بات بننے والی نہیں ہے۔ میڈیکل کالج کے پرنسپل یا اسپتالوں کے چیف میڈیسن افسر اس اہم عہدے کو بھلے ہی ڈاکٹر سنبھالتے ہوں لیکن ایک طرح سے یہ انتظامی عہدہ ہوتا ہے کیونکہ سسٹم درست کرنا ان عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس لئے اس واقعہ کے لئے وہ ہی ذمہ دار ہیں۔ اس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ یوگی سرکار آخر ان میڈیکل کالجوں کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹے بڑے سرکاری اسپتالوں میں بد انتظامی کو کب تک برداشت کرے گی؟ آخر کب تک عام آدمی ایسی لاپروائی کا شکار بنتا رہے گا؟ پورے معاملے کی جانچ ہونی چاہئے اور جو بھی قصوروار ہے اس پر سخت سے سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ اگر سرکار کی پالیسی اور انتظامی خامیاں ہیں تو وہ فوراً دور کرنی ہوں گی۔ ان معصوموں کی موت کوئی عام اور معمولی واقعہ نہیں ہے جسے نظر انداز کیا جاسکے۔ (جاری)
(انِل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟