معصوم بچوں کی موت کا ذمہ دار کون؟(2)

گورکھپور کے بابا راگھوداس میڈیکل کالج اسپتال میں آکسیجن کی کمی سے 64 لوگوں کی موت کا سانحہ اپنے آپ میں اس لئے بھی چونکانے والا ہے کیونکہ آکسیجن سپلائی رکنے کی وجہ سے اتنی موتیں ہونے کا یہ دیش میں پہلا معاملہ ہے۔ بیشک اس میں ہم یوگی سرکار کو برا بھلا کہیں اور ان کی تنقید کریں لیکن اصل قصوروار تو وہاں کا انتظامیہ، آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی، وہاں کے سینئر ڈاکٹر و افسر بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں موت سے لڑتے معصوموں کی زندگی آکسیجن کے جس پتلے سے پائپ پر ٹکی تھی ، ڈاکٹروں نے ہی کمیشن کے لالچ میں اس پائپ کو کاٹ دیا۔ بچوں کی موت کے بعد اب میڈیکل کالج کے ملازم بتا رہے ہیں کہ میڈیکل کالج کے پرنسپل راجیو مشرا کی بیوی عام کمیشن سے دو فیصدی زیادہ چاہتی تھی اس لئے انہوں نے آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی کی ادائیگی لٹکائے رکھی تھی۔ ذرائع کے مطابق پرنسپل راجیو مشرا اپنی بیوی کے ذریعے سے آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی پشپا سیلس سے کمیشن کی ڈیمانڈ کرتا تھا۔ ان کی بیوی اسی اسپتال میں آیوش کی ڈاکٹر ہیں۔ الزام ہے کہ بیوی نے پشپا سیلس سے دو لاکھ اور پہلے سلنڈر سپلائی کرنے والی کمپنی سے 50 ہزار روپے کا کمیشن مانگا تھا۔ جسے نہ دینے پر اس کا پیمنٹ روک دیاگیا۔چونکانے والی بات یہ ہے کہ 9 اگست 2017 اور اس سے ٹھیک ایک مہینے پہلے 9 جولائی کو جب وزیر اعلی آدتیہ ناتھ نے اسپتال کا دورہ کیا تو دونوں بار دو دو گھنٹے کی میٹنگ انتظامیہ سے ہوئی تھی۔ اس میں پرنسپل میں اسپتال کے 400 ملازمین کی پیمنٹ نہ ملنے ، تقرریوں اور تعمیرات سے متعلق مسائل پرتو بات کی لیکن آکسیجن اور پیمنٹ سے متعلق کوئی تذکرہ نہیں ہوا جبکہ جولائی سے ستمبر ماہ کے درمیان گیس کی کھپت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ دماغی بخار کی بیماری اس سیزن میں بڑھ جاتی ہے۔ پھر سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ اگر گورکھپور کے ڈی ایم چوکس ہوتے تو یہ حادثہ ٹالا جاسکتا تھا۔ حالانکہ سرکار نے آکسیجن کی سپلائی میں رکاوٹ ہونے سے بچوں کی موت سے انکار کیا ہے ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ آکسیجن سپلائی کو لیکر سپلائر کمپنی اور میڈیکل کالج کے درمیان کافی دنوں سے خط و کتابت چل رہی تھی۔ کالج کے پرنسپل کے ساتھ ضلع انتظامیہ کو بھی اس کی جانکاری تھی۔ کمپنی نے 1 اگست کو پرنسپل کو لکھے خط کی جانکاری ڈی ایم گورکھپور کو بھی دی تھی۔ مقامی میڈیا کئی دنوں سے آکسیجن کی سپلائی ٹھپ ہونے کا اندیشہ جتا رہا تھا۔ اس کے باوجود ضلع انتظامیہ نے اس مسئلہ کے حل کے لئے اپنے سطح پر کوئی کوشش نہیں کی۔ کہا جارہا ہے کہ اگر گورکھپور کے ڈی ایم سنجیدہ ہوتے اور میڈیا رپورٹ اور کمپنی کے خط کو سنجیدگی سے لیتے تو شاید موجودہ حالات سے بچا جاسکتا تھا۔ واقف کار بتاتے ہیں کہ راجیو روتیلا کے خلاف ویجی لینس انکوائری میں آگے جانچ کی ضرورت بتائی گئی ہے اس کے باوجود انہیں وزیر اعلی کے آبائی ضلع کا کلکٹر بنا دیا گیا۔ اس حادثہ کے بعد یوگی سرکار نے پردیش کے سبھی اسپتالوں سے آکسیجن سلنڈر کی تفصیل مانگتے ہوئے اسٹیٹس رپورٹ دینے کو کہا ہے۔ انتظامیہ نے سبھی اسپتالوں کو آکسیجن سپلائی کرنے والے ٹھیکیداروں کے بقایا جاتا کی ادائیگی کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔ وزیر صحت سدھارتھ سنگھ نے سوائن فلو کے بڑھتے مریضوں کو دیکھتے ہوئے اسپتالوں کو بھی چوکس رہنے کی ہدایت دی ہے۔ اسی کے ساتھ بی آر ڈی میڈیکل کالج کے پرنسپل ، وائس پرنسپل ڈاکٹر کفیل خاں کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اب وہ کسی بھی اہم عہدے پر نہیں رہیں گے۔ یہ کارروائی سی ایم کے دورہ کے بعد کی گئی ہے ڈاکٹر کفیل مریضوں کی مدد کرنے کو لیکر سوشل میڈیا میں سرخیوں میں آئے تھے لیکن ان پر کئی سنگین الزامات لگے ہیں۔ دماغی بخارمحکمہ کے انچارج کے طور پر ڈاکٹر کفیل سیدھے طور پر ذمہ دار بنتے ہیں۔ اس پورے حادثہ کی باریکی سے جانچ ہونی چاہئے اور ان قصورواروں کا پردہ فاش ہو اور انہیں سزا ملے۔ اس کے ساتھ ہی اترپردیش کے تمام سرکاری اسپتالوں ، ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس کا بھی پردہ فاش ہونا چاہئے۔ بیشک ریاستی حکومت اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی لیکن اصل قصوروار تو وہاں کے ڈاکٹر ، مقامی انتظامیہ ہی ہے۔ اب تفصیل سے بتاتے ہیں ڈاکٹر کفیل کے بارے میں گورکھپور میڈیکل کالج میں جس ڈاکٹر کفیل احمد خاں کو سوشل میڈیا نے مسیحا بنا دیا اس کے بارے میں نئی نئی جانکاریاں سامنے آرہی ہیں۔ کفیل احمد کی بیوی ڈاکٹر شبستاں خاں گورکھپور میں میڈی اسپرنگ چلڈرن ہاسپٹل چلاتی ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ ڈاکٹر کفیل سرکاری اسپتال میں نوکری کرتے ہوئے بھی اپنی بیوی کے اسپتال سے پوری طرح جڑے ہوئے ہیں اور وہاں پریکٹس کرتے ہیں۔ اسپتال سے ملی جانکاری کے مطابق ڈاکٹر کفیل آبروریزی کے مبینہ ملزم بھی ہیں۔ ایک مسلم طبقہ کی عورت نے ان پر اپنے کلنک میں آبروریزی کا الزام لگایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس معاملہ میں کفیل ایک سال تک جیل کی ہوا بھی کھا چکا ہے۔ کفیل گورکھپور میڈیکل کالج میں نوکری کرتا ہے لیکن اس کا خود کا نرسنگ ہوم ہے جس میں وہ صبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک مریضوں کو دیکھتا ہے ۔اسی بات سے سمجھا جاسکتا ہے کفیل کی کتنی توجہ سرکاری نوکری پر ہے۔کفیل نے لوکل میڈیا کے دوست بنا رکھے ہیں اور انہی کے دم پر اس نے بچوں کی موت کے بعد اپنے حق میں خبریں چھپوا لیں۔ ہمیشہ مسلمان مسیحا کی تلاش میں رہنے والے دہلی کے میڈیا نے اس خبر کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا اور راتوں رات کفیل کی تاریخ جانے بنا اسے ہیرو بنا دیا۔ بتایا جاتا ہے آبروریزی کے معاملے میں پھنسے کفیل پر متاثرہ نرس کا الزام تھا کہ 15 مارچ 2015ء کو کفیل اور اس کے بھائی کاشف جمیل نے نوکری کے بہانے کلنک بلا کر اس کے ساتھ آبروریزی کی تھی۔ متاثرہ نرس جب شکایت درج کرانے تھانے گئی تو اسے بھگادیا گیا۔ پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب سماجوادی پارٹی کے قریبی ہیں پولیس ان کے خلاف ایکشن نہیں لے سکتی۔ کسی طرح سفارش لگانے کے بعد 19 اپریل کو پولیس نے کیس تو درج کرلیا لیکن کارروائی نہیں ہوئی۔ متاثرہ نرس نے انصاف کے لئے کئی جگہ چکر لگائے آخر ہارکر وہ ہائی کورٹ گئی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج نے تین مہینے کے اندر کارروائی کی ہدایت دی لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ 6 مہینے بعد خاتون نے ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی عرضی دائر کی اور انصاف کی اپیل کی۔ کورٹ کے حکم پر جیل بھیجا گیاکفیل 30 جنوری 2016 کو الہ آباد ہائی کورٹ نے دوبارہ سماعت کرتے ہوئے پولیس کو پوری جانچ کرنے کے لئے تین مہینے کا وقت دیا۔ عدالت نے اسے توہین کا معاملہ مانتے ہوئے تب گورکھپور کے ایس پی لو کمار کو حکم دیا کہ وہ قصورواروں کے خلاف کارروائی یقینی بنائے۔ اس کے بعد ایس ایس پی نے کوتوالی تھانہ کے ایس او کو حکم جاری کیا اور اس کے بعد ڈاکٹر کفیل کو گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا۔ کچھ دن بعد ضمانت پر چٹ کر کفیل نے پھر سے اپنا دھندہ شروع کردیا۔ یہ ہے ڈاکٹر کفیل احمد کی اصل کہانی۔ درجنوں بے قصور وں کی موت کے ذمہ داراسپتال انتظامیہ سے لیکر آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی دونوں پر زبردست لاپروائی اور غیر ارادتاً قتل کا معاملہ بنتا۔ کمپنی نوٹس دینے کی آڑ میں بچ نہیں سکتی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ آکسیجن سپلائی روکنے کا نتیجہ کیا ہوگا۔ یہ چونکانے والی جانکاری بھی آئی ہے کہ جب پشپا سیلس کا 68.65 لاکھ روپے کی ادائیگی روکی گئی اس وقت میڈیکل کالج کے کھاتے میں 1 کروڑ 86 لاکھ روپیہ موجود تھا اس کے باوجود اس کا بل ادا نہیں کیا گیا۔ کیونکہ کمیشن پر تنازعہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ پیمنٹ کس کے کہنے پر روکی گئی؟ جیسا کہ میں نے کہا کہ معصوموں کے اس قتل کی غیر جانبدارانہ ، آزادانہ جانچ ہونی چاہئے اور قصوروار کوئی بھی ہو اپنی ذمہ داری سے نہ بچے۔ یہ نہ تو مذہب کا معاملہ ہے اور نہ ذات کا یہ معصوم بچوں کی موت کا معاملہ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟