ہزاروں کروڑ کی پراپرٹی کا مالک وجیہ پت پائی پائی کو محتاج

کبھی برطانیہ میں اکیلے جہاز اڑا کر بھارت آنے والے دیش کے بڑے امیروں میں شمار 12 ہزار کروڑ روپے کے ریمنڈ گروپ کے مالک وجیہ پت سنگھانیہ کے آج سڑک پر آجانے کی تکلیف دہ خبر پڑھی۔ 78 سالہ وجیہ پت سنگھانیہ آج پائی پائی کو محتاج ہیں ،ایسا ان کا کہنا ہے۔ اور ان کی اس قابل رحم حالت کیلئے بقول ان کے کوئی باہری نہیں بلکہ ان کا بیٹا گوتم سنگھانیہ ذمہ دار ہے۔ مکیش امبانی کے اٹالیہ سے بھی اونچے گھر میں رہنے والے وجیہ پت کو ممبئی کی ایک سوسائٹی کے کرائے کے مکان میں رہنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ مالا بار ہلس میں اپنے 36 منزلہ جے کے ہاؤس میں ڈپلکس گھر کے لئے وجیہ پت نے ممبئی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایاہے۔ ممبئی ہائی کورٹ میں وجیہ پت کے وکیل ونائر مینڈن نے بتایا کہ سنگھانیہ نے کمپنی میں اپنے سارے شیئر بیٹے کو دے دئے تھے۔ ان کی قیمت قریب 1 ہزار کروڑ روپے تھی۔ گوتم نے اب انہیں بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی گاڑی اور ڈرائیور بھی چھین لئے ہیں۔ سب سے رئیس لوگوں میں شمار وجیہ پت کا ایوی ایشن اینڈ فلم صنعت سے بھی رسوخ تھا۔ دنیا بھر میں سوٹنگ اور شٹنگ کے لئے مشہور ریمنڈ کمپنی کی بنیاد 1925ء میں رکھی گئی تھی۔ پہلا ریٹیل شوروم 1958 ء میں ممبئی میں کھلا۔ کمپنی ٹیکسٹائل، انجینئرنگ اور جہاز رانی بزنس میں شامل رہی۔ وجیہ پت نے کمپنی کی کمان 1980ء میں سنبھالی تھی اور اسے جدید صنعت گروپ کی پہچان دی۔ 1986 میں پریمیم برانڈ پارک ایوینیو لانچ کیا۔ فیسیبل ڈریس اور نئی اسٹائل کے چاہنے والے مردوں کیلئے مکمل رینج دستیاب کرائے۔ ہندوستانی ایئرفورس میں کمانڈرکے اعزاز سے نوازا۔1994 ء میں 24 دن میں 34 ہزار کلو میٹر اڑان بھری اور 1998 ء میں برطانیہ سے بھارت تک اکیلے مائیکرو لائٹ جہاز اڑا کر لائے۔ پدم بھوشن سے نوازے گئے۔ دسمبر 2005 سے دسمبر 2006ء تک ممبئی کے شیرف رہے۔ ایسے آدمی کے ساتھ ایسا برتاؤ ہو تشویش اور افسوس دونوں کاباعث ہے اگر وجیہ پت سنگھانیہ کی شکایت صحیح ہے تو یہ ہر ماں باپ کے لئے نصیحت ہے کہ ان کو اپنے ہاتھ پاؤں کبھی نہیں کٹوانے چاہئیں۔ آج کی اولاد کا کچھ پتہ نہیں۔حالانکہ بزرگوں کو حکومت نے پراپرٹی کی سکیورٹی کی ذمہ داری دے دی ہے۔ اگر سینئر سٹی زن کا بیٹا یا بیٹی یا قانونی وارث پراپرٹی اپنے نام رضامندی سے یا ڈرا دھمکا کر کرانے کے بعد ان کی دیکھ بھال یا ان کی پرورش نہیں کرتا تو پراپرٹی خالی کروائی جاسکتی ہے۔ اس سے سینئر سٹی زن اب پراپرٹی معاملے میں بچوں سے پریشان نہ ہوں اور وہ سیدھے عدالت جا سکتے ہیں۔ سنگھانیہ پریوار دیش کے جانے مانے صنعتی پریواروں میں سے ہے میں بھی شخصی طور سے کچھ سنگھانیہ کو جانتا ہوں لیکن وہ تو ایسے نہیں ہیں۔ ویسے بھی وہ مالواڑی اسٹائل سے بھگوان سے ڈرنے والے لوگ ہیں۔ پتہ نہیں کہ گوتم ایسا کیوں کررہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟