میڈل جیتنے پر دھن ورشا کی جگہ ٹریننگ پر خرچ کیا جائے

ریو میں میڈل جیتنے کے بعد سے ہی بیڈمنٹن سلور میڈل جیتنے والی پی وی سندھو اور ساکشی ملک کو پہلوانی میں کانسے کا میڈل جیتنے پر انعاموں کی بوچھا ہورہی ہے۔ اب تک سندھو کو تلنگانہ حکومت نے 5 کروڑ روپے، آندھرا حکومت نے3 کروڑ روپے، دہلی سرکار نے 2 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ 3 کروڑ روپے انہیں دیگر کھیل انجمنیں دیں گی ساتھ ہی آندھرا حکومت نے انہیں 1 ہزار مربع گز زمین اور اے گریڈ سرکاری نوکری بھی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کل ملا کر اب تک سندھو کو13 کروڑ روپے نقد انعام کا اعلان ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں بی ایم ڈبلیو کار بھی ملے گی۔ اسی طرح ساکشی ملک کو بھی ہریانہ سرکار 2.5 کروڑ ،دہلی سرکار 1 کروڑ اور تلنگانہ سرکار1 کروڑ روپے دے گی ساکشی کو ریلوے50 لاکھ اور ترقی دے گا۔ ان کے پتا جو بس کنڈیکٹرہیں، کو بھی ترقی ملے گی۔ یہ سب قریب5 کروڑ روپے بنتا ہے ذرا سوچئے اگر کھلاڑیوں کو سنوارنے پر اتنا خرچ کیا جاتا تو شاید نتیجے کچھ اور ہوتے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں اولمپک میں سب سے زیادہ میڈل جیتنے والے امریکہ، برطانیہ اور چین جیسے ملکوں کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ وہاں کے کھلاڑیوں کو ٹریننگ اور سہولیت پر زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں ایک کھلاڑی پر 74 کروڑ روپے، ریو اولمپک کی تیاری پر خرچ ہوئے لیکن انعام میں گولڈ میڈل جیتنے والے کو صرف16 لاکھ روپے انعام میں ملتا ہے۔ برطانیہ جس نے ریو اولمپک میں کمال کردکھایا ہے اور چین جیسے ملک کو پچھاڑدیا ہے۔ فی کھلاڑی 48 کروڑ روپے اس کے ٹیلنٹ کو نکھارنے پر خرچ کرتا ہے۔ میڈل جیتنے والے کو کوئی الگ سے انعام نہیں ملتا۔ اب بات کرتے ہیں چین کی۔ وہاں فی کھلاڑی 47 کروڑ روپے خرچ کئے جاتے ہیں اور میڈل جیتنے والے ونر کو24 لاکھ روپے نقد انعام دیا جاتا ہے۔ اب اپنا حال بھی جان لیں۔ مرکزی حکومت نے ریو اولمپک جانے والے سبھی کھلاڑیوں پر 160 کروڑ روپے خرچ کئے۔ انسانی وزارت وسائل ترقی کی اسٹنڈنگ کمیٹی کے مطابق بھارت میں صرف 3 پیسے فی شخص یومیہ کھیل پر خرچ ہوتا ہے جبکہ امریکہ ، برطانیہ اور چین جیسے ملکوں کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ یہ دیش کھلاڑیوں کو بہت ہی کم نقد انعام دیتے ہیں لیکن دیش کے کھلاڑیوں کی ٹریننگ اور سہولیت پر زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے میڈل ٹیلی میں یہ دیش آگے رہتے ہیں۔ میڈل جیتنے کے بعد بھارت میں ریاستی حکومتیں اور کھیل انجمنیں اپنی تجوریاں کامیاب کھلاڑیوں کے لئے کھول دیتی ہیں لیکن اس کے لئے سخت محنت کر رہے ایتھلیٹ اپنی سرکاروں سے بھی روپیہ ملنے کی آس لگائے کنگال ہوجاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ میڈلوں سے خوش ہونے کی جگہ میڈلوں کی تیاریاں کرنے پر زیادہ توجہ دی جائے۔ دیش میں کھیل ریاستوں کا اشو ہے لیکن پوری تیاریوں پر پورا خرچ مرکزی حکومت کرتی ہے۔ میڈل جیتنے پر یہی ریاستی حکومتیں کروڑوں انعام دینے کا اعلان کرکے اپنا پرچار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی ریاستی حکومتیں ایسے ایتھلیٹوں کو بھی ریاست کا بتا دیتی ہیں جو وہاں پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی کھیلے تھے۔ اس بار اترپردیش سرکار نے بھی ساکشی ملک کو رانی لکشمی بائی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا لیکن ایسی ریاستوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کے پردیش میں ایتھلیٹ کھیلوں میں کھیل کا اچھا مظاہرہ کیوں نہیں کررہے ہیں؟ سندھو نے 2010ء میں عالمی چمپئن شپ میں تانبے کا میڈل جیتا تھا۔ اگر اس وقت اتنی مدد کی جاتی تو آج وہ گولڈ میڈل ضرور لاتیں۔ وہ تو مرکزی سرکار کے تحت آنے والے اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا اور گوپی چند اکیڈمی کا بھلا ہو کہ جنہوں نے اس کی مدد کی۔ مرکزی سرکار کو پالیسی بنانی چاہئے کہ صرف وہی انعام کا اعلان کرے کیونکہ ریاستی سرکاروں کا اس طرح کا برتاؤ باقی ایتھلیٹ کو غلط راستہ اپنانے پرمجبور کرتا ہے۔پھر میڈل جیتنے کیلئے ایتھلیٹ غلط راستے بھی کبھی کبھی اپنالیتے ہیں۔ ریاستی حکومتوں کو انعاموں کی رقم ایتھلیٹ کی ٹریننگ اور سہولیات پر خرچ کرنی چاہئے اور یہ کام اسکولی سطح سے شروع ہونا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!