اسکارپین ڈاٹا فاش سے ہماری سلامتی کو چنوتی
اگر انگریزی اخبار ’دی آسٹریلین‘ کی رپورٹ پر یقین کرتے ہوئے مان لیں کہ فرانس کی کمپنی ڈی سی این ایس کے ذریعے ممبئی کے مڈگاؤں بندرگاہ پر بنائی جارہی اسکارپین کیٹگری کی 6 آبدوز کے 22 ہزار صفحات کے اعدادو شمار چوری ہوگئے ہیں تو یہ صرف آبدوز بنانے والی فرانسیسی کمپنی کیلئے ہی تشویش کاباعث نہیں بلکہ بھارت سمیت کئی دیگر ملکوں کیلئے بھی پریشان ہونے کی وجہ ہے۔ بھارت بی سی این ایس نے 6 اسکارپین آبدوز خرید رہا ہے اس کے علاوہ آسٹریلیا، ملیشیا، چلی اور برازیل کے پاس بھی یہ آبدوز ہیں یا ان دیشوں کا بھی ان سے سودا ہو چکا ہے۔ اس اہم ترین پروجیکٹ پر بھارت کی سمندری سلامتی کا کافی دارومدار ہے لیکن اگر اس سے وابستہ خفیہ راز پہلے ہی دشمن کے پاس پہنچ جائیں گے تو اس سے ہماری سلامتی کیلئے خطرہ پیدا ہوگا۔ آسٹریلیائی اخبار نے اسکارپین سے متعلق22 ہزار دستاویزوں کے فاش ہونے کی جو خبر دی ہے اس نے اس کی رفتار سے لیکر اس کے سینسر اور بحری سسٹم اور کمیونیکیشن صلاحیت کی معلومات ہے جو بیحد حساس مانی جاسکتی ہے۔ اگر اس کے پیچھے ہیکنگ ہے، جیسا کہ وزیر دفاع منوہر پاریکر نے اندیشہ ظاہر کیا ہے، تو بھی اس آبدوز سے متعلق اہم معلومات اب انٹرنیٹ کے ذریعے عام ہوچکی ہیں اور ان کے پاکستان اور چین جیسے پڑوسی ملکوں کے ہاتھوں چلے جانے کا خطرہ ہے، جن کی بڑھتی سانجھے داری بھارت کے لئے چیلنج بنتی جارہی ہے۔ جو معلومات فاش ہوئی ہیں ان میں ان آبدوز کی تمام اہم معلومات جیسے کونسی فری کوئنسی استعمال کرتی ہے ،مختلف رفتار میں اس کی آواز کیسی ہوتی ہے، آبدوز میں ایسے محفوظ مقام کونسے ہیں جہاں پر ہونے والی بات چیت کودشمن کے آلات تک نہیں پکڑسکتے۔ یہ تو شاید جانچ کے بعد ہی پتہ چل سکے گا کہ یہ دستاویز لیک کہاں سے ہوئے؟
ایک اندیشہ یہ ہے کہ یہ بھارت سے لیک ہوئے ہیں جہاں آبدوز بنانے والی کمپنی بھارت کیلئے یہ آبدوز بنا رہی ہے لیکن زیادہ اندیشہ اسی بات کا ہے کہ فرانس میں کمپنی کے ہیڈ کوارٹر سے دستاویز لیک ہوئے ہیں۔ زیادہ اندیشہ یہی ہے کہ دستاویز 2011ء میں کمپنی کے ساتھ کام کرنے والے کسی شخص نے چرائے ہوں۔ اس لئے بھارت کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ جو جانکاریاں دی گئی ہیں وہ پرانی ہیں۔ اس سے آبدوز کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اسکارپین آبدوز کی ڈیزائن الگ الگ ملکوں کے لئے بھلے ہی مختلف ہوتی ہوں، لیکن بنیادی تکنیک یکساں ہوتی ہے۔ اس لئے یہ اعدادو شمار ہندوستانی آبدوز کے نہیں بھی ہوں پھر بھی پریشانی کم نہیں ہے، اگر اعدادو شمار متضاد رائے سے ہندوستانی آبدوز کے بارے میں لیک ہوئے ہیں تو زیادہ پریشان کن صورتحال ہے۔ بحریہ کو زیر تیاری آبدوز کے ڈیزائن میں تبدیلی جیسے قدم اٹھانے ہوں گے۔
ایک اندیشہ یہ ہے کہ یہ بھارت سے لیک ہوئے ہیں جہاں آبدوز بنانے والی کمپنی بھارت کیلئے یہ آبدوز بنا رہی ہے لیکن زیادہ اندیشہ اسی بات کا ہے کہ فرانس میں کمپنی کے ہیڈ کوارٹر سے دستاویز لیک ہوئے ہیں۔ زیادہ اندیشہ یہی ہے کہ دستاویز 2011ء میں کمپنی کے ساتھ کام کرنے والے کسی شخص نے چرائے ہوں۔ اس لئے بھارت کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ جو جانکاریاں دی گئی ہیں وہ پرانی ہیں۔ اس سے آبدوز کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اسکارپین آبدوز کی ڈیزائن الگ الگ ملکوں کے لئے بھلے ہی مختلف ہوتی ہوں، لیکن بنیادی تکنیک یکساں ہوتی ہے۔ اس لئے یہ اعدادو شمار ہندوستانی آبدوز کے نہیں بھی ہوں پھر بھی پریشانی کم نہیں ہے، اگر اعدادو شمار متضاد رائے سے ہندوستانی آبدوز کے بارے میں لیک ہوئے ہیں تو زیادہ پریشان کن صورتحال ہے۔ بحریہ کو زیر تیاری آبدوز کے ڈیزائن میں تبدیلی جیسے قدم اٹھانے ہوں گے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں