جب امریکہ نے کارگو جہاز میں 115 ارب نقد ایران بھیجے

روزنامہ اخبار ’’بھاسکر‘‘ نے ایک انگریزی اخبار ’دی نیویارک ٹائمس‘ کے حوالے سے ایک آرٹیکل شائع کیا ہے۔ اس کا مضمون نہایت دلچسپ ہے۔ میں اسے پیش کررہا ہوں۔ امریکی چناؤ میں صدارتی عہدے کے لئے ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان زبردست مقابلہ چل رہا ہے۔ آخری جائزوں میں ہلیری کلنٹن کا پلڑا بھاری بتایا جارہا ہے جبکہ ٹرمپ کے حمایتی دعوی کررہے ہیں کہ نومبر میں ہونے والے الیکشن میں ان کے امیدوار کی جیت پکی ہے۔اس درمیان ایک نئی بحث اچانک چھڑ گئی ہے یہ پیلٹس آف کیش ہیش ٹیک۔ یہ115 ارب روپے نقد ایران میں جانے کا اشو ہے۔ اوبامہ حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے جنوری میں ایک کارگو جہاز سے یہ رقم نقد ( 115 ارب روپے) ایران پہنچائی تھی۔ اپوزیشن ریپبلکن پارٹی نے اسے بڑا اشو بنا کر بحث چھیڑ دی ہے جس میں کہا جارہا ہے کہ سرکار ایسے دیش کے آگے جھک گئی جو دہشت گردی کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اس کے لئے ریپبلکن پارٹی ہلیری کلنٹن کو بڑا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ امریکی چناؤ سرگرمی میں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا دور جاری ہے۔ اچانک 115 ارب روپے نقد ایران بھیجنے کا معاملہ گڑھا گیا ہے۔ براک اوبامہ کی سرکار نے کہا کہ اس نے ایران کے ساتھ دہائیوں پرانے مالی جھگڑے کا نپٹارہ کرنے کے لئے اس سال جنوری میں 115 ارب روپے نقد پہنچائے تھے یہ رقم ایسے کارگو جہاز میں رکھی گئی تھی جس پر سامان پہنچانے کی سیل نہیں تھی۔ اتنی رقم کا اعلان تب کیاگیا تھا جب ایران سے نیوکلیائی معاہدہ ہوا اور اس نے چار یرغمال امریکیوں کو رہا کیا تھا۔ ریپبلکن پارٹی نے اس اشو کو بڑی چناوی بحث میں بدل دیا ہے اور کہا کہ ایسا کوئی پرانا جھگڑا تھا ہی نہیں، حکومت نے ایک طرف دیش کو زر فدیہ کے طور پر اتنی بڑی رقم ادا کی ہے یہ موضوع پہلے ہی سیاسی تنازع بنا پھر اس نے زیادہ طول اس وقت پکڑ لیا جب ایک انگریزی جریدے ’’دی وال اسٹریٹ جرنل‘‘ نے اس کی مفصل تفصیلات شائع کردیں ۔ اس میں بتایا گیا کہ پہلی قسط کے طور پر ایران کو 2720 کروڑ روپے (400 ملین ڈالر) امریکی یرغمال کو رہا کرنے کے بدلے چکائے گئے ہیں۔ اس سے سرکار کا جھوٹ سامنے آگیا ہے۔ چناوی ماحول میں اس کی نکتہ چینی ہونے لگی۔ ریپبلکن لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس اشو کو بھنانے سے نہیں چوکے۔ انہوں نے اس ادائیگی کے لئے فوراً اپنی حریف ہلیری کلنٹن پر تنقید شروع کردی۔ انہوں نے کہا کہ اس زرفدیہ کی بات چیت ہلیری نے ہی شروع کرائی تھی اور انہوں نے ٹیم کی قیادت کی تھی۔ حالانکہ ’دی وال اسٹریٹ جرنل‘ خبر کو وائٹ ہاؤس نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ چھ مہینے پرانی خبر ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟