نایاب جڑی بوٹیوں کی کھوج

یہ بہت خوشی کا موضوع ہے کہ پچھلے کچھ برسوں سے بھارت کے پرانے ادویا علاج کوبڑھاوا ملا ہے۔ چاہے وہ آیوروید ہو چاہے وہ حکمت ہو۔ ہندوستانی کمپنیوں نے جدید تکنیک اور پیکنگ کرکے نہ صرف بھارت میں ہی بلکہ پوری دنیا میں ایسی دواؤں کی مقبولیت بڑھائی ہے۔ ڈابر، پتنجلی، بیدناتھ، ہمالے، ہمدرد( ریکس ریمیڈکس) کمپنیوں کی دوائیں آج ساری دنیا میں جا رہی ہیں۔ آیوش وزارت نے بھی آیورویدک دواؤں کی برآمدات بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حال ہی میں 150 ملکوں میں ان دواؤں کی برآمدات ہوتی ہے۔ بین الاقوامی بازار پر اور پکڑ بنانے کے لئے ان دواؤں کی تیاری کی طرف اور امکانات کا پتہ لگایا جارہا ہے۔ ادویہ پروڈیوسروں اور صنعتکاروں اور آیوش انسٹی ٹیوٹ کے نمائندوں کو بین الاقوامی نمائش اور میلوں میں بھی بھیجنے کا منصوبہ ہے۔ آیوروید اوشدھیوں میں حالانکہ تھوڑی کمی ریسرچ کی ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ کبھی کبھی اس کے مضر اثرات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس مرض کے لئے دوا لی جاتی ہے اس میں تو آرام مل جاتا ہے لیکن شوگر ، بلڈپریشر وغیرہ بڑھ جاتا ہے اس لئے ان کمپنیوں کو اپنی ریسرچ بڑھانی ہوگی۔ 
ہمارے ویدوں اور قدیمی طبی کتابوں میں سنجیونی کے برابر نایاب جڑی بوٹیوں کو اکثر ذکر آتا ہے۔ آیوش وزارت سنجیونی کے برابر ایک نایاب جڑی بوٹیوں کی تلاش میں ریاستوں کی مدد کرے گا۔ مرکزی کی آیورویدک سائنس انسٹیٹیوٹ کونسل نے قدیمی پانڈو لپیو کو دوبارہ سے رائج کرنے اور ان کو پھر سے شائع کرنے کی مہم تیز کردی ہے۔ اس کے تحت درلبھ رسم الخطوں سے 30 کتابوں کی اشاعت ہوچکی ہے۔ ان میں ابھینو،چنتا منی، اشٹانگ، سنگرہ، میلہ اور چاروچرچا ، دھنوتی، سارندھی، سہستریوگ، وید، مناریما، ویدک اثاثہ جیسی کتابیں شامل ہیں۔ حال ہی میں دیش بھر میں صرف 6 فیصد آبادی ہندوستانی طبی طریقے سے علاج کراتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق صحت سے متعلق سماجی استعمال پر کرائے گئے اس سروے نے بتایا کہ آیوروید ،یونانی، ہومیوپیتھک یوگ اور قدرتی طبیبیت سے علاج کرانے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے لیکن یہ اب بھی کم ہے۔ سینٹرل یونانی میڈیکل ریسرچ کونسل نے یونانی علاج کی قدیم نسخوں کے تحفظ کی مہم بھی شروع کی ہے ان میں 50 نسخوں کی کتاب کی شکل میں اشاعت کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ یہ سبھی نسخے، اردو،عربی، فارسی میں ہیں۔ نیشنل اوشدھی بورڈ نے آیورویدک کے قدیم طبی علاج کے فروغ کے لئے ٹریننگ کے مرکز اسپانسر پروگرام شروع کیا ہے۔ اس کے تحت اتراکھنڈ اور دیگر ریاستوں میں جڑی بوٹیوں کی تلاش اور ان کے تحفظ میں مرکزی مدد بڑھان کی تجویز ہے۔ اتراکھنڈ میں طبی ونسپتی سروے بھی شروع کیا جارہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟