میں نے غائب کرائی تھی بوفورس کی فائل:نیتا جی

نیتا جی ملائم سنگھ یادو سنسنی خیز باتوں کے لئے مشہور ہے۔وہ کبھی کبھی ایسی بات کہہ ڈالتے ہیں جس سے تنازعہ کھڑا ہوجاتا ہے تازہ انکشاف میں لکھنؤ میں نیتا جی نے ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نیشنل لاء یونیورسٹی کے دسویں جلسہ تقسیم اسناد میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے وزیر دفاع رہتے انہوں نے جموں وکشمیر کے دور دراز علاقوں میں فوج کے حالات دیکھے ہیں وہ رات گزاری ہے یہاں تک تو ٹھیک تھا انہو ں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بوفورس کو لیتے ہوئے راجیو گاندھی پر بہت سنگین الزام لگے تھے ہم نے اس توپ کو چلتے ہوئے دیکھا ہے اس نے سرحدی علاقوں میں اچھا مظاہرہ پیش کیا ہے۔ ہم نے وزیر دفاع رہتے بوفورس معاملے کو آگے نہیں بڑھایا۔ ہم نے اس کی فائل بھی غائب کی تھی ہماری رائے یہ ہے کہ سیاسی لوگوں پر مقدمے نہیں چلنے چاہئے۔ سیاست آسان کام نہیں ہے آپ کسی ایم ایل اے کو رات کے دو بجے بھی اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن کیا آئی اے ایس اور آئی پی ا یس افسر کو رات کے دو بجے جگا سکتے ہیں؟ سیاسی لوگوں پر بدلے کے جذبے سے کارروائی نہیں ہونی چاہئے۔ ان پر مقدمہ نہیں چلنا چاہئے۔ سیاسی لوگ جیل جائیں گے تو سیاست کیسے ہوگی؟ ویسے تو یہ گڑے مردے اکھاڑنے والی بات ہے لیکن تب بھی قارئین کو بتا دیں کہ آخر بوفورس اشو کیا تھا؟ راجیو گاندھی حکومت نے مارچ 1986 میں سویڈن کی اے وی بوفورس کمپنی سے 400 ہوئٹزر توپے خریدنے کا معاہدہ کیاتھا۔ ان توپوں کی خرید میں دلالی کاانکشاف اپریل 1987میں سویڈن ریڈیو نے کیاتھا۔ اس کے مطابق بوفورس کمپنی نے 1437 کروڑ روپے کاسودا حاصل کرنے کے لئے ہندوستان کے بڑے سیاست دانوں اور فوج کے افسروں کو رشوت دی تھی۔ اس انکشاف سے ہندوستانی سیاست میں کھلبلی مچ گئی تھی۔1989 کے لوک سبھا چناؤ میں بوفورس کو سورگیہ وی پی سنگھ نے اہم اشو بنادیاتھا اور چناؤ میں راجیو گاندھی حکومت اقتدار سے باہر ہوگئی۔ وی پی سنگھ راشٹریہ مورچہ( نیشنل فرنٹ) حکومت کے وزیراعظم بن گئے ۔1990 میں نئی سرکار نے بوفورس دلالی کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی تھی۔ کئی قانونی ارچنوں کے بعد سی بی آئی 1997میں سویڈن سے بوفورس دلالی سے جڑے 500 صفحات کا دستاویز لانے میں کامیاب رہی۔ اس کی بنیاد پر سی بی آئی نے 1999میں ون چڈھا، کواتروچی وسابق ڈیفنس سیکریٹری ایس کے بھٹناگر و دیگر کے خلاف چارج شیٹ میں سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کو بھی ملزم بناگیا تھا۔ 2000 میں سی بی آئی نے ضمنی چارج شیٹ دائر کی۔ 2002میں اہم ملزمان ون چڈھا اور ایس کے بھٹناگر کی موت ہوگئی۔ 2004میں دہلی ہائی کورٹ میں راجیو گاندھی کے خلاف تمام الزامات کو خارج کردیا۔ سوال یہ ہے کہ نیتا جی نے گڑے مردے کو آخر پھر کیوں زندہ کرنے کی کوشش کی ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!