بے شک دھماکہ دہلی میں ہوا لیکن نشانے پر اسرائیل تھا


Published On 15th February 2012
انل نریندر
دہلی میں پچھلے کئی مہینوں سے کوئی آتنکی واقعہ نہیں ہوا تھا۔ اورہمیں لگنے لگا تھا آخر کار ہماری سیکورٹی ایجنسیوں نے آتنک واد پر کچھ حد تک قابو پالیا ہے ۔7ستمبر 2011 کو دہلی ہائی کورٹ میں بم دھماکہ ہواتھا جس میں 15لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ درجنوں افراد زخمی ہوئے تھے بے شک جو دھماکہ ہوا وہ انتہائی سنگین ہے اس میں حالانکہ کسی کی موت تو نہیں ہوئی لیکن یہ کئی پہلوؤں سے ہائی کورٹ کمپلیکس کے باہر ہوئے دھماکے سے زیادہ تشویش کا باعث ہے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دھماکہ ایسی جگہ ہوا جو دیش کا سب سے انتہائی محفوظ ترین علاقہ مانا جاتا ہے وزیراعظم کی رہائش گاہ سے محض 500 میٹر کی دوری پر پیر کے روز دوپہر اسرائیلی سفارت خانہ کی کار میں زور داردھماکہ ہوا دھماکے بعد کار میں آگ لگ گئی جس سے اس میں سوار ایک اسرائیلی خاتون ڈپلومیٹ افسر سمیت چار افراد زخمی ہوگئے ۔موٹر سائیکل سوار آتنکی نے میکنٹک ڈیوائس ( اسٹیکی بم) سے چلتی ہوئی انوا گاڑی میں دھماکہ کیا۔ اس کار کے بگل میں چل رہی ہے دو دیگرکاروں کو نقصان پہنچا۔ اس واردات میں اسرائیلی سفارت کار اس کا ڈرائیور انڈیکا کار میں سوار دو دیگر لوگ زخمی ہوئے ہیں۔زخمی سفارت کار کو چندرگپت مارگ پر واقع پرائمر اسپتال کے آئی سی یو میں رکھاگیا ہے باقی تینوں زخمیوں کو رام منوہر لوہیا اسپتال میں داخل کرایاگیا ہے جس جگہ یہ دھماکہ ہوا وہ انتہائی وی آئی پی علاقہ ہے جہاں دونوں طرف بڑے نیتا اور وزراء کے بنگلے ہیں۔پولیس کمشنر بی کے گپتاکے مطابق سفارت خانے میں ایڈمنسٹریٹو اتاشی کے عہدے پر مامور خاتون ڈپلومیٹ یہوا تین اورنگ زیب روڈ پرواقع امریکن اسکول میں پڑھ رہے اپنے بچوں کو لینے جارہی تھی تب ہی دوپہر بعد قریب سوا تین بجے اورنگ زیب روڈ پر واقع مرکزی وزیر مکل واسنک کے بنگلے کے سامنے ان کی چلتی انووا کار (109 سی ڈی 35) میں دھماکہ ہوگیا۔ پولیس کو ملے ایک چشم دید گواہ نے بتایا کہ لال رنگ کی موٹر سائیکل پر سوار ہیلٹ میٹ لگائے لڑکے نے چلتی کار میں پیچھے سے میکنٹ ڈیوائس چپکائی اور تیزی سے فرار ہوگیا۔ پولیس افسران کے مطابق جس طرح کا بم استعمال اس حملے میں ہوا ہے وہ پہلی بار دیکھاگیا ہے اسے اسٹیکی بم کہاجاتا ہے۔ عام طور پر فوج ہی اس کااستعمال کرتی ہے۔اسٹیکی بم ایسا بم ہوتا ہے جسے چلتے چلتے کسی بھی گاڑی پر چپکا دیاجاتا ہے۔اس میں چپکن کا کام بم کے ساتھ لگی میکٹنٹ یعنی چبنک کرتی ہے جو کارلوہے کی باڈی پر ہلکے سے چھوتے ہی چپک جاتی ہے دہلی پولیس کے سینئر بتاتے ہیں کہ اس میں پلاسٹک دھماکوں کااستعمال ہلکے بن کے لئے کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بم پھٹنے کی ٹائم سیٹنک میکانیزیم بھی اپنے میں نہیں ہے۔ اس طرح بم کا استعمال ہونا ہماری فوج سیکورٹی کے لئے ایک سنگین چنوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بم یا تو بیرونی ملک سے لایاگیا ہے یا پھر فوج کے کسی ڈپو سے چرایاگیا ہے میں نے فلموں میں دیکھا ہے اس طرح کے بم کو چلتے ٹینک پر چپکا دیا جاتا ہے جسے ٹینک اڑ جاتا ہے یہ دھماکہ محص اتفاق نہیں تھا۔ پیر کو ہی جارجیا کی راجدھانی تبلسی میں واقع اسرائیل سفارت خانے پر ایسا ہی حملے کی کوشش کی گئی۔ اسرائیلی ریڈیوں نے کہا ہے کہ ایک ملازم نے دھماکوں سے مسلح ایک بار سفارت خانے کے پاس کار کودیکھا تھا اور اس نے پولیس کو خبر دی تھی پولیس نے وہاں پہنچ کر بم کوناکارہ کردیا بعد میں اس میں واقعہ کے جانکاری سفارت خانے کو دی گئی۔ اس کے بعد دنیا بھر اسرائیلی سفارت خانوں کو ہائی الرٹ جاری کردیاگیاتھا۔ قابل غور ہے کہ حالیہ مہینوں میں آذر بائیجان ،تھائی لینڈ اوردیگر مقامات پر بھی اسرائیلی عمارتوں پر حملے کی سازش ناکام کی گئی ہے۔ تھائی لینڈ میں تو پچھلے ماہ ایک حزب اللہ وابسطہ لبنان کے ایک شخص کو گرفتار کیاگیا ہے اس کے پاس سے دھماکہ کا سامان بھی برآمد ہواتھا۔ چونکہ نشانے پر اسرائیلی تھے اس لئے یہ کہاجاسکتا ہے کہ اس کے پیچھے اسلامی کٹر پسندوں کاہاتھ ہوسکتا ہے۔ا سرائیلی وزیراعظم نے واردات کی جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ اس کے پیچھے آتنکی تنظیم حزب اللہ اور ایران کاہاتھ ہے اس سے پہلے 25/11 کے ممبئی آتنکی حملے میں رباب ہاؤس کونشانہ بنایاگیا تھا جہاں سات اسرائیلی مارے گئے تھے حزب اللہ لبنان کی مسلم کٹر پسند تنظیم ہے اور سیاسی پارٹی ہے۔ اتوار کو اس کے ایک بڑے لیڈر عماد مغنی کی چوتھی برسی تھی مغنی ایک میزائل حملے میں مارا گیا تھا۔ حزب اللہ نے مغنی کی موت کے لئے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کو ذمے دار ٹھہرا کر بدلا لینے کی قسم کھائی ہے ایران میں بھی ایک بڑے قانون ساز کو پچھلے دنوں میزائل حملے میں ماردیاگیاتھا۔ ایران نے بھی اسرائیل کے ہاتھ ہونے کا الزام لگایا تھا اس حملے میں ایک ایرانی آتنکی تنظیم عمادموچھیا کانام بھی آرہا ہے اب تک دیش میں کتنے آتنکی واقعات ہوئے ہیں اس میں کبھی اس تنظیم کا نام نہیں آیا ہے۔ حالانکہ پولیس کا خیال ہے کہ تنظیم کا خاص مقصد اسرائیلی شہریوں کو نقصان پہنچانا تھا کچھ لوگ تو یہ بھی کہے رہے ہیں ایران نے پاکستانی آتنکیوں کے ذریعہ واردات کوانجام دیا ہوگا۔ اس سلسلے میں زیادہ شبہ حزب المجاہدین اورلشکر طیبہ پر جاتا ہے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ 26/11حملے میں بھی اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنایاگیاتھا۔واردات کے پیچھے کوئی بھی ہو۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ انہیں مقامی مدد ضرور ملی ہے کیونکہ موٹر سائیکل سوار ایک ہندوستانی ہی ہوگا۔میکنٹ بم کا استعمال نہ صرف دہلی پولیس بلکہ تمام سیکورٹی ایجنسیوں کے لئے تشویش کا باعث ہونی چاہئے۔ بلکہ ابتک اس طرح کے بموں کااستعمال ایران اور کچھ عرب ممالک میں ہوتا آیا ہے۔ ذرائع کی مانے تو دہلی میں ہوئے اس حملے میں نائٹروگلیسرین، سلفر ،پوٹاشیم کیروریٹ کااستعمال کیاگیا ہے۔ نائٹروگلیسرین کااستعمال اسی طرح کے دھماکوں میں کیا جاتا ہے۔عرب ممالک اوراسرائیل کے درمیان لڑائی میں اب بھارت بھی آگیا ہے۔ پیر کو یہ واقعہ ہمارے اندرونی اسباب سے نہیں ہوا ہے یہ تشویش کی بات ہے اسرائیل اس حملے کا بدلہ ضرور لے گا۔ عیسائی بنام اسلام لڑائی آج کی نہیں بلکہ ہزاروں برس پرانی چلی آرہی ہے۔ ایران پر کسی بھی وقت اب اسرائیل ، امریکہ، حملہ کرسکتاہے۔ کہیں دہلی کے اس دھماکے سے معاملے اور زیادہ نہ بڑھ جائے؟
Anil Narendra, Daily Pratap, Delhi Bomb Case, Delhi High Court, Israil, Terrorist, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟