مالدیپ میں تختہ پلٹ کیا بھارت کے مفاد میں ہوگا؟

بھارت کی بدقسمتی کہیں یا پھر ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کہیں ہم اپنے پڑوسیوں کے معاملے میں فیل ہوتے جارہے ہیں۔ محض 400 کلو میٹر کی دوری پر واقع بحر ہند میں جزیروں میں بسا مالدیپ اب بھارت کے لئے ایک نئی تشویش کا سبب بنتا جارہا ہے۔بھارت کا پڑوس غیرسلامتی کے ماحول اور فوجی چنوتیاں پیدا کرتا رہتا ہے۔ مالدیپ میں تختہ پلٹ جیساواقعہ کچھ اسی طرح کی چنوتی کا اشارہ ہے۔ حالانکہ مالدیپ کے صدر محمد نشید نے اپنے دیش کو خون خرابے سے بچالیا۔ لیکن انہیں نہ صرف استعفیٰ ہی دینا پڑا بلکہ اب جیل یاترا بھی کرنی پڑرہی ہے۔ مالدیپ میں اس تبدیلی اقتدار کی خاص وجہ سابق ڈکٹیٹرمعمون عبدالقیوم کی مبینہ ہمدردی اور انتہا پسندوں کی رہائی کے لئے ایک سینئر جج کی گرفتاری کا حکم بن گیا۔ چار سال پہلے انسانی حقوق رضاکار اور اپنے سوالوں و ٹکراؤکے لئے قیوم عہد میں زیادہ تر جیل رہے۔ نشید میں تین لاکھ کی آبادی والے اس ملک میں جمہوری طور طریقوں والی تاریخی حکومت کی لیڈر شپ سنبھالی تھی۔پھر نشید نے اتنی بڑی گڑ بڑی کیا کردی کہ جنتا کو انہیں گدی سے اتارنے کا فیصلہ لینا پڑا۔ پہلی تو یہ کہ صدر نشید اقتدار میں آکر بھی کٹر رضاکار بنے رہے۔ اس مزاج کے نیتا بنے شخص میں سرکار چلانے کا سلیقہ و لچیلا پن کم ہوتا ہے۔ ایسے دیش میں جہاں جمہوریت کی روشنی تک نہیں پنپی ہو وہاں منمانی پالیسیاں نافذ کرنے اور انہیں کے مطابق نتیجے پانے کی اڑیل اپیل بھی تاناشاہی لگنے لگتی ہے۔ مالدیپ کی اصلاح اور جمہوری شکل سے چنے گئے پہلے صدر محمد نشید نے کئی ہفتوں کی سیاسی اتھل پتھل کے بعد مخالفین کے ساتھ پولیس کے مل جانے پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ خود مبصرین کا خیال ہے کہ محمد نشید کے استعفے کو ایک عام واقعہ نہیں مانا جاسکتا۔ یہ صحیح معنی میں مالدیپ میں اصلاح پسند جمہوری نظام پر کٹر پسند طاقتوں کی کامیابی ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے چناؤ میں کٹر پسند اہم کردار میں ہوں گے۔ دراصل مالدیپ کے لوگ چاہتے ہیں کے ان کے دیش کا صدر ایسا ہو جو اسلامی قانون کی ایمانداری سے تعمیل کرے اور محمد نشید ان کے اس نظریئے پر کھرے نہیں اتر پا رہے تھے۔ اس مکمل عمل کے پیچھے پاکستان اور چین اہم کردار نبھا رہے ہیں۔ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ مالدیپ کٹر پسندی کا گڑھ بن جائے تاکہ پاکستان اپنی ہند مخالف سرگرمیوں کو مالدیپ کے ذریعے انجام دے سکے۔ مالدیپ کے زیادہ تر نوجوان اعلی تعلیم کے لئے پاکستان جاتے ہیں اور وہاں جاکر تعلیم کے ساتھ ساتھ کٹر پسنداسلامی نظریئے کی خوبیوں سے روشناس ہوکر لوٹتے ہیں۔ مالدیپ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کی آبادی حالانکہ اتنی کٹر پسند نہیں ہے لیکن روایتی اسلامی نظریات سے وابستہ ہے لیکن آج کا اہم ذریعہ سیاحت ہے اس لئے مالدیپ میں عام شہریوں کے لئے الگ قاعدہ ہے اور سیاحوں کے لئے الگ۔ ارب اثر اور پیسے کی وجہ سے کٹرپسند اسلام کا اثر مالدیپ میں بڑھتا جارہا ہے۔ حالانکہ فوجی نظریئے سے مالدیپ کا کوئی حکمراں بھارت کو نظرانداز نہیں کرسکتا یا بھارت کے مفادات کے خلاف نہیں جاسکتا۔ نشید سے پہلے صدر معمون عبدالقیوم بھی بھارت کے دوست تھے اور 1988 ء میں ہندوستانی فوج نے قیوم کے خلاف بغاوت کو ناکام کیا تھا لیکن بھارت کا دوررس مفاد اسی میں ہے کہ اس جزیرے میں تمام دیشوں میں اصلاح اور جمہوری نظام بنا رہے۔ نشید اس لئے بھارت کے لئے اہم تھے کہ نئے صدر بھی کٹر پنتھی نہیں ہیں اور بھارت کے دوست ہیں لیکن ان کی پریشانی یہ ہے کہ مجلس میں ان کے حمایتی نہیں ہیں ۔ اندیشہ یہ ہے کہ عوامی ناراضگی کا فائدہ اٹھا کر کٹر پسند اپنی بالادستی نہ قائم کردیں۔ پولیس و فوج کی بغاوت یوں بھی طویل عدم استحکام پیدا کرسکتی ہے۔ اس بار تبدیلی اقتدار بالکل گھریلو توقعات کا معاملہ تھا اس لئے بھارت کا کسی طرح کا مداخلت نہ کرنا ہی صحیح تھا۔ 1988ء کی طرح تمل انتہا پسندوں کا حملہ نہیں تھا جب قیوم کے بلانے پر بھارت نے فوج بھیجی تھی۔
Anil Narendra, Daily Pratap, India, Maldives, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟