اترپردیش میں چل رہا ہے ایک سائلینٹ کرنٹ


Published On 16th February 2012
انل نریندر
ایسا کون سا اشوہے جسے یوپی کے لیڈر سمجھ نہیں پارہے ہیں اور جنتا سمجھ رہی ہے؟ منڈل کمنڈل کے بھڑکاؤ اور اشتعال آمیز ماحول میں بھی جب اترپردیش میں 57 فیصدی سے زیادہ پولنگ نہیں ہوئی لیکن اس مرتبہ پتہ نہیں کون سا کرنٹ انڈر کرنٹ چل رہا ہے کہ اتنی بھاری پولنگ ہورہی ہے۔ سطح پر بالکل امن ہے نہ کسی کااحتجاج اورنہ ہی کسی کے حق میں ہوا صاف چل رہی ہے۔ مگرپھر بھی پولنگ 60 فیصدی کے قریب رہی ۔ اترپردیش میں آزادی کے بعد پہلی مرتبہ یہ کرشمہ دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے بھی زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ پہلے دومرحلے کی پولنگ میں اچھی آبادی کا ڈسٹنگ شن سے پاس ہونا؟پہلے مرحلے میں بارش کے باوجود مردوں سے زیادہ پولنگ فیصد عورتوں کا تھا۔زیادہ پولنگ کو اترپردیش میں حکمراں مخالف لہر کی شکل میں دیکھاجاتا ہے۔اس بے حد آسان سے کے خیال کے لئے پچھلی دہائیوں میں نتیجہ ہی ذمہ دار ہے 1985کے بعد کسی بھی حکمراں پارٹی مسلسل دوسری بار سرکار بنانے میں ناکام رہی۔ایسے میں بڑی پولنگ کو سپا بھاجپا وکانگریس ظاہری طورپرحکمراں بسپا مخالف لہر کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ کانگریس کو توراہل کا کرشمہ دکھائی دے رہاہے۔ سپا کو بسپا سرکار کا کرپشن تو بھاجپا کومرکزی حکومت کے خلاف یوپی کے لوگوں کاغصہ مگر ایسا کیا ہے کہ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ووٹر بھاری تعداد سڑکوں میں اترے۔ آزادی سے اب تک ہوئے کل 15انتخابات میں کبھی اس طرح سڑکوں پر پولنگ کے نہیں نکلی۔ ایمرجنسی کے بعد 1977میں ہو یا پھر 1991میں رام جنم بھومی تحریک کی لہر نے بھی پولنگ فیصد 55فیصدی کے پاس ر ہی۔ بھاجپا کو روکنے کے لئے 1993 میں سماجی انصاف دلت سیاست کو کانشی رام اورملائم نے کٹھ جوڑ کر سماجی تبدیلی کابگل پھونکا۔ لیکن پولنگ 60 فیصدی کے جادوئی نمبر تک نہیں پہنچ سکی۔ 6 مارچ کو نتیجہ آنے سے پہلے تک سیاسی پنڈت اور پارٹی اپنی دلیل اورحساب کتاب پیش کرے گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہوا کے مزاج کوکوئی نہیں بھانپ رہا ہے۔ اگرپولنگ میں عورتوں اور نوجوانوں کی بڑھتی ساجھے داری سے ہماری جمہوریت کے مضبوط ہونے کے صاف اشارے ہیں کہ کرپشن کے خلاف انا ہزارے کی تحریک کااثر صاف دکھائی پڑرہا ہے تب ہی تو کچھ ووٹروں نے رائٹ ٹو ریجکیٹ( مسترد کرنے کا حق) کامتبادل بھی استعمال کیاہے لیکن اترپردیش کے مشرقی علاقے میں دومرحلوں میں ہوئی پولنگ سے جو ہوا چلی ہے وہ مغربی حصے تک آتے آتے بدل بھی سکتی ہے اس علاقے میں فیصلے کی چابی مسلمانوں اور جاٹوں کے ہاتھوں میں ہے ۔عام طورپر مغربی یوپی میں جاٹوں کا دبدبہ مانا جاتاہے جاٹوں کی لیڈر کی شکل میں چودھری اجیت سنگھ قریب دودہائیوں سے اپنادبدبہ بنائے ہوئے ہیں کانگریس کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے اجیت سنگھ کو کل 54 سیٹیں ملی تھی۔ اگرزمینی سطح پر یہ سمجھوتہ صحیح معنوں نافذ ہوتا تو دونوں کانگریس اور راشٹریہ لوک دل کو فائدہ ہوگا۔ مغربی یوپی میں مسلمانوں ووٹوں کی خاص اہمیت ہے حالانکہ حکمراں ہونے کے ناطے مغربی اترپردیش میں بی ایس پی کے تئیں ناراضگی پائی جاتی ہے لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ اس علاقے کی زیادہ ترسیٹوں پر خاص مقابلہ بی ایس پی سے ہی ہے دراصل بی ایس پی کے 20 فیصدی دلت ووٹ اس کا بڑا ہتھیار ہے مقامی سطح پر دلتوں کے علاوہ سبھی ذاتیں اپنے درمیان کا امیدوار ڈھونڈرہی ہے۔ صرف دلت ہی بہن جی کے اشارے میں ووٹ دیتے ہیں ۔علاقے میں بسپا کے علاوہ مسلمان سپا اور کانگریس کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ ایسا ہوا تو بسپا ہی فائدے میں رہے گی۔ اگرمسلمان ووٹ متحد ہوا بسپا ہی سب سے زیادہ خسارے میں رہے گی۔ پورے مغربی اترپردیش میں ہر سیٹ پر ذات پات تغذیہ الگ الگ ہے کچھ علاقوں میں بھاجپا بھی مضبوط پوزیشن میں ہے۔ خاص طورپر شہری علاقوں میں اس کااثر صاف دکھائی پڑرہاہے اس مرتبہ کاچناؤ بہت کچھ امیدواروں پر منحصر کرے گا۔ کل ملا کر دیکھنا یہ ہے کہ جو ہوا پہلے دور کی پولنگ میں چلی وہ تیسرے دور میں بھی برقرار رہتی ہے.
Anil Narendra, Bahujan Samaj Party, BJP, Congress, Daily Pratap, Mayawati, Mulayam Singh Yadav, Samajwadi Party, State Elections, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟