کیا اصل فیض یافتگان کو مل رہا ہے فائدہ ؟
سپریم کورٹ نے بدھ کو اپنے تبصرہ کیا کہ راشن کارڈ پاپولیرٹی کارڈ بن گیا ہے اور سوال کیا کہ کیا غریبوں کے لئے مقرر فائدہ عام لوگوں تک پہنچ رہا ہے ؟ بڑی عدالت نے کہا کہ سبسڈی کا فائدہ ضرورت مند لوگوں تک پہنچنا چاہیے ۔جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس کوٹورسنگھ کی بنچ کووڈ 19- وبا کے دوران پرواسی مزدوروں کی پریشانیاں دور کرنے کے لئے شروع کئے گئے ۔ایک از خود نوٹس معاملہ کی عدالت سماعت کررہی تھی ۔اس دوران جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ ہماری تشویش یہ ہے کہ کیا حقدار غریبوں کو ملنے والے فائدے ان لوگوں تک پہنچ رہے ہیں جس اس کے حقدار نہیں ہیں ۔راشن کارڈ اب پاپولیرٹی کارڈ بن گیا ہے ۔انہوں نے کہا یہ ریاستیں بس یہی کہتی ہیں کہ ہم نے اتنے کارڈ جاری کئے ہیں ۔کچھ ایسی ریاستیں ہیں جو اپنا وکاس دکھانا چاہتی ہیں تو کہتی ہیں کہ ہماری فی شخص آدمدنی بڑ رہی ہے ۔جب ہم غریبی کے نیچے کی زندگی (بی پی ایل) کے لوگوں کی بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ 75 فیصدی آبادی وی پی ایل ہے۔ان حقائق کو کیسے جوڑا جاسکتا ہے ؟ تضاد اس میں پایا جاتا ہے ۔ہمیں یہ یقینی کرنا ہوگا کہ فائدہ کے حقدار اصل فیض یافتگان کو تک پہنچے ۔سپریم کورٹ نے کہا کہ ریاستی حکومتیں جب وکاس انڈیکس دیکھتے ہیں تو فی شخص آمدنی کو زیادہ دکھاتی ہیں ،لیکن جیسے سبسڈی کی بات آتی ہے تو وہ 75 فیصدی آبادی کو خط افلاس کی یعنی بی پی ایل کے نیچے مانتی ہے ۔سرکار کو یہ صاف کرنا ہوگا کہ کیا واقعی 75 فیصدی آبادی خط افلاس کی زندگی بسر کررہی ہے جبکہ ریاستوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی فی کس آمدنی بڑھ رہی ہے ۔جسٹس سوریہ کانت و جسٹس این کوٹیشور سنگھ کے بنچ نے کہا کہ سبسڈی کا فائدہ صرف غریبوں کو ملنا چاہیے ۔ہمارا خاص اشو یہی ہے کہ کیا غریبوں کے لئے مقرر فائدہ کیا صحیح حقداروں تک پہنچ رہا ہے یا وہ ان لوگوں تک جارہا ہے جو اس کے حقدار نہیں ہیں ۔بڑی عدالت نے کہا کہ راشن کارڈ اب ایک مقبول کارڈ بن چکا ہے چونکہ کئی ریاستوں میں غریبوں کی جگہ اسے سیاسی فائدہ کے لئے دیا جارہا ہے ۔ایڈووکیٹ وکیل پرشانت بھوشن نے کہا آج میں لاچاری کے سبب یہ تضاد پیدا ہوتے دیکھ رہاہوں کہ کچھ مٹھی بھر لوگ بے حد امیر ہیں جبکہ بڑی آبادی غریب بنی ہوئی ہے ۔اور فی شخص آمدنی کی شماری کل ریاستوں کی آمدنی کا اوسط نکال کر کی جاتی ہے جس سے نابرابری کی اصل تصویر سامنے نہیں آپاتی ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں