ڈریس ریہرسل یا وارننگ و سازش؟

امسال جنوری کے مہینے میں کیا ہندوستانی بری فوج کے کچھ لوگوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کی تیاری کرلی تھی؟ ان فوجی ٹکڑیوں تختہ پلٹ کی نیت سے کیا باقاعدہ دہلی کو گھیرنے کے لئے مہم آگے بڑھا دی تھی؟ یہ ہیں کچھ برننگ سوال جو بدھوار کی صبح سے ہی راجدھانی میں موضوع بحث بنے رہے۔ دراصل انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کے بدھوار کے شمارے میں ایک سنسنی خیز انکشاف سے ہلچل مچ گئی۔ ایڈیٹر شیکھر گپتا کی لکھی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کس طرح16-17جنوری کی رات حصار اور آگرہ سے فوج کی دو بڑی ٹکڑیاں دہلی کے لئے کوچ کرکے آگے بڑھی تھیں۔ تمام گولہ بارود سے مسلح انفینٹری برگیڈ کی ٹکڑیاں دہلی کے ایک دم قریب پہنچ گئی تھیں۔ کسی طرح صورتحال پر قابو پایا گیا۔ فوج کی حصار33 ویں ڈویژن کی ٹکڑی بہادر گڑھ آکر رک گئی اور یہاں سے آگے نہیں بڑھی۔ دوسری ٹکڑی آگرہ سے (12 ڈویژن) گولہ بارود اور ٹینکوں کے ساتھ پالم کے پاس آکر رک گئی۔ کیا یہ اتفاق تھا کے 16 جنوری کو ہی بری فوج کے جنرل وی کے سنگھ اپنی عمر کے معاملے کو لیکر سپریم کورٹ گئے تھے۔ انڈین ایکسپریس کی اس رپورٹ سے دہلی کے سیاسی گلیاروں میں ہلچل مچ گئی۔ ہلچل کہنا غلط ہے بلکہ کھلبلی بہتر لفظ ہوگا۔ سیاستدانوں کے خبر سنتے ہی طوطے اڑ گئے۔ سرکار کی جیسا کے عادت و مجبوری ہوتی ہے نہ رپورٹ کو سرے سے مسترد کیا اور نہ رپورٹ کو مانا کے بٹالینیں آگرہ اور حصار سے بہادر گڑھ اور پالم تک تو آئی تھیں لیکن یہ بھی کہا ہے کہ بری فوج کی سرگرمیاں عام ہیں۔ حالانکہ سرکار یہ نہیں بتا پارہی ہے کہ بری فوج نے ڈیفنس وزارت کی جانکاری میں لائے بغیر دہلی کے لئے کوچ کیوں کیا؟ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے بدھوار کو کہا یہ رپورٹ ڈر پیدا کرنے والی ہے۔ ایسی رپورٹ پر زیادہ توجہ نہیں دی جانی چاہئے۔ فوج کے چیف اور سرکار کے درمیان جاری رسہ کشی کے سوال پر وزیر اعظم نے کہا کے فوج کے چیف کا عہدہ بہت بڑا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ایسا کچھ نہ کریں جس سے اس کے وقار پر آنچ آتی ہو۔
وزیر دفاع اے کے انٹونی نے فوج کی طرف سے کسی قسم کے تخت پلٹ کے ڈر کو پوری طرح سے بکواس قراردیا۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ فوج ایسا کچھ نہیں کرے گی جس سے ڈیموکریسی کمزور ہو۔ انٹونی کے مطابق فوج کی دیش بھکتی پر سوال نہیں اٹھنے چاہئیں۔ ڈیفنس وزارت کے ترجمان نتانشو نے بتایا کہ فوج اس قسم کی مشقیں کرتی رہتی ہے اور سابق بری فوج کے جنرل وید پرکاش ملک نے کہا میں تو اسے ایک مضحکہ خیز رپورٹ ہی کہہ سکتا ہوں۔ یہ کسی کی شرارت لگتی ہے۔ میرا خیال ہے فوج کی مشقیں یومیہ ٹریننگ کا حصہ تھیں اور ڈیفنس وزارت کو اسے نوٹیفائی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ سابق فوج کے چیف ایڈمرل پرکاش کا تبصرہ تھا صحافت کی یہ ایک بڑی ہی غیر ذمہ دارانہ مثال ہے۔ مجھے تعجب نہیں ہے کہ اس رپورٹ کو چھاپنے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے۔ سابق ایئر فورس کے چیف ایئرمارشل ایس پی تیاگی نے کہا کہ رپورٹ پوری طرح غلط ہے اتنی ہی مضحکہ خیز۔ میں اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہوں گا۔
سی ادے بھاسکرجو ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انالسٹ ہیں کا کہنا تھا کہ جس طرح فوج نے دہلی کی طرف بڑھنے کے بارے میں خبر چھپی ہے اس سے اس کو مایوسی اور تشویش ہوئی ہے۔ جیسا کے فوج کی کوئی تختہ پلٹ کی اسکیم تھی۔ انڈین ایکسپریس کے ذریعے دی گئی یہ خبر غلط نہیں ہے۔ کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ فوجی ٹکڑیوں کی اس دن حرکت نہیں تھی۔ سبھی اسے جنرل مشقیں بتا رہے ہیں۔ یہ رپورٹ تشویش کا باعث ضرور بنتی ہے۔ ہمارے مطابق انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے بھروسے پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔ نہ تو شیکھر گپتا ایسی سنسنی خیز خبریں پھیلانے والے صحافی ہیں اور نہ ہی اخبار اتنا غیر ذمہ دار ہے، تو پھر 17-16 جنوری کو کیا ہوا؟ ایک ٹکڑی کے مشقیں کرنے کی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن ایک دن دو مختلف شہروں سے تقریباً ایک ہی وقت دو ٹکڑیوں کی نقل و حرکت پر سوالیہ نشان کھڑے ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں کافی چھان بین کی گئی ہے ان کا نتیجہ یہ ہے کہ جنرل وی کے سنگھ ایک ایماندار اور وفادار افسر ہیں یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔ کیا یہ ایک ڈریس ریہرسل تھی؟ ویسے بھارت جیسے دیش میں سیاسی تختہ پلٹنا آسان نہیں۔ تختہ پلٹ کی کوئی بھی کوشش بری فوج کے دہلی ایریا کمانڈر کی جانکاری میں لائے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔
اگر بری فوج کوئی مشقیں کررہی ہے تو یہ دہلی ایریا کمانڈر کو پتہ ہونا چاہئے۔اس لئے دہلی کے ایریا کمانڈر سے اس بارے میں پوچھ تاچھ کی جانی چاہئے۔دیش میں کہیں بھی کسی طرح کی مشقیں کی جاتی ہیں تو اس کی پہلے سے جانکاری نہ صرف ڈیفنس وزارت کو ہونی چاہئے بلکہ سول حکام کو بھی پتہ ہونا چاہئے تاکہ عام زندگی متاثر نہ ہو۔ انڈین ایکسپریس کی اس رپورٹ سے ایک بات اور سامنے آئی ہے وہ یہ کہ فوج اور یوپی اے سرکار میں بھاری اختلافات ہیں۔ فوج میں اس سرکار کو لیکر بہت زیادہ مایوسی کا ماحول ہے۔ فوج اس لئے بھی ناراض ہے کے دہلی میں بیٹھے سرکاری بابو فوجی سامان کی سپلائی پر لاپروائی برتتے ہیں جس کی وجہ سے فوج کی اہلیت متاثر ہورہی ہے اور یہ سرکار گھوٹالوں سے نمٹنے میں اپنا سارا وقت گذار رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں سرکار دیش کی سلامتی سے سمجھوتہ کررہی ہے۔ اس مسئلے کے دونوں پہلو ہیں۔ فوج کی یہ سرگرمی عام اس لئے ہے کہ فوجی ڈویژن کی ہر تیسرے ماہ مشقیں ہوتی رہتی ہیں اور اس کی سرکار کو جانکاری دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ فوجی مشق کے کلنڈر میں اس بارے میں اطلاع درج تھی۔ 26 جنوری کی وجہ سے دہلی میں کئی ڈویژن پہلے سے ہی تعینات تھیں۔ ایک چھوٹی ٹکڑی سے تو دہلی پر قبضہ نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف یہ عام اس لئے ہے کے فوجی ڈویژن کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے پر اطلاع دینی پڑتی ہے۔
عام طور پر مشق کے لئے دہلی کو نہیں چنا جاتا۔ 26 جنوری کی وجہ سے دہلی میں فوج کی موجودگی کے باوجود مشقوں کی اسکیم کیوں بنی؟ متعلقہ ڈویژن کے سینئر افسران نے اس کی حساسیت کو کیوں نہیں سمجھایا پہچانا؟ ایسے بہت سے سوال ہیں جن کا جواب آنے والے دنوں میں ملے گا۔ ہمارا تو یہ خیال ہے کہ 16 جنوری کی یہ موومنٹ عام مشقیں نہیں تھیں ہو سکتا ہے کہ سوئی حکومت کو جگانے کے لئے یہ جھٹکا دیا گیا یا پھر یہ کسی بڑے کام کے لئے ڈریس ریہرسل تھی۔
A K Antony, Anil Narendra, Coup, Daily Pratap, General V.k. Singh, Manmohan Singh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟